پاکستانی معیشت ‘ بیرونی امداد

تری گرفت میرا حوصلہ بڑھاتی ہے
مجھے تُو اپنی محبت میں مبتلا رکھنا
پاکستانی معیشت ‘ بیرونی امداد
پاکستان کی معیشت انتہائی ابتر صورتحال کا شکار ہے ۔ وہاں عمران خان کی قیادت میں قائم ہونے والی تحریک انصاف پارٹی کی حکومت کیلئے حالات ابتداء ہی سے مشکل ترین ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کے حالات بگاڑے ہوں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں سابقہ نواز شریف حکومت کے دور میں جو حالات پیدا ہوئے تھے ان کی وجہ سے اب وہاں نئی حکومت کیلئے صورتحال انتہائی پیچیدہ اور گنجلک ہوکر رہ گئی ہے ۔ عمران خان حالانکہ حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے اور انہیںمعیشت کے اسرار و رموز سے بھی تفصیلی واقفیت حاصل نہیں ہے لیکن وہ صورتحال سے اپنے انداز میں نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہیں اس کام میںانتہائی مشکلات ضرور پیش آ رہی ہیں اور وہ ان پر قابو پانے ہر وہ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیںجن سے کچھ رقم سرکاری خزانہ میں جمع ہوسکتی ہے ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ انہوں نے وزیر اعظم کے گھر کی بھینسیں تک فروخت کردینے سے گریز نہیں کیا ۔ وہ وزیر اعظم کی کاریں فروخت کر رہے ہیں۔ ایسے اقدامات حالانکہ معیشت کیلئے استحکام کا باعث نہیں ہوسکتے لیکن یہ ضرور ہے کہ حکومت اپنے طور پر کوششوں کا آغاز کرچکی ہے ۔ پاکستان کے سامنے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے رجوع ہونے کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا ۔ آئی ایم ایف سے رجوع ہونے میں حکومت اور خود پاکستان کیلئے مشکلات تھیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط پاکستان کیلئے سازگار نہیں ہوسکتی تھیں اور شائد امریکہ بھی آئی ایم ایف پر اپنی شرائط مسلط کرنے کیلئے اثر انداز ہوسکتا تھا ۔ شائد یہی وجہ تھی کہ عمران خان آئی ایم ایف سے کم سے کم مدد لینا چاہتے تھے اوروہ سعودی عرب سے رجوع ہوگئے ۔ سعودی عرب نے پاکستان کیلئے چھ بلین ڈالرس کی مدد کا اعلان کردیا ہے جس سے حالت سدھر سکتی ہے ۔ یہ مدد اتنی نہیں ہے کہ اس سے ساری معیشت ہی سدھر جائے لیکن کچھ بہتری ضرور پیدا ہوسکتی ہے ۔ پاکستان کچھ دوسرے ممالک سے بھی مدد حاصل کر رہا ہے ایسے میںاسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر کم سے کم انحصار کرنا پڑیگا اور یہ صورتحال پاکستان اور اس کے عوام کیلئے مثبت کہی جاسکتی ہے ۔
عمران خان کو ابتداء سے اقتدار کے مزے لوٹنے کی بجائے کانٹوں کے تجربہ سے گذرنا پڑ رہا ہے ۔ ان کیلئے حالات ان کی توقع سے زیادہ ابتر ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کے اقتدار کے صرف چند ہفتوں میں ان پر تبصرے اور تنقیدیں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ یہ پاکستانی سیاست کا حصہ ہیں۔ عمران خان کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے طور پر اقدامات کرنے کے ساتھ معاشی ماہرین اور اس کے اسرار و رموز سے واقفیت رکھنے والوں کے ساتھ مل کر کام کریں۔ معیشت کی جو صورتحال ہے وہ انتہائی نازک ہے اور اس کو سدھرنے کیلئے چند دن یا چند ہفتے یا چند مہینے نہیں بلکہ کچھ برس درکار ہونگے ۔ اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ معاشی محاذ پر عمران خان حکومت کی کارکردگی کے تعلق سے کوئی رائے ان کی معیاد کی تکمیل سے قبل قائم نہیں کی جاسکتی کیونکہ جو صورتحال ہے وہ انتہائی پیچیدہ ہے اور معیشت پر بے تحاشہ بوجھ ہے ۔ دوسرے محاذوں پر حکومت کی کارکردگی پر درمیان میں بھی رائے قائم کی جاسکتی ہے ۔ معاشی محاذ پر ایسا کرنا درست نہیںہوگا ۔ جن ممالک سے پاکستان امداد حاصل کر رہا ہے وہ اس کے دوست اور مشکل میں کام آنے والے ممالک ہیں لیکن عمران خان کی حکومت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ دوسروں پر انحصار کرتے ہوئے معیشت کو سدھارنے میں کامیابی نہیں مل سکتی ۔ کچھ راحت ضرور مل سکتی ہے لیکن یہ مسئلہ کا مستقل اور دائمی حل ہرگز نہیں ہوسکتا ۔
ایک پہلو یہ بھی قابل غور ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری عروج پر ہے ۔ خود سرکاری اداروں کی جانب سے ایسے عناصر کی پشت پناہی اور سرپرستی کی جاتی ہے ۔جب تک اس صورتحال پر قابو نہیں پایا جائیگا اس وقت تک معاشی محاذ پر بھی کامیابی ممکن نہیں رہ جاتی ۔ بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوششوں میں دہشت گردی اور تخریب کاری ایک بڑی رکاوٹ ہوتی ہے اور پاکستان کی صورتحال میں شائد ہی کوئی بیرونی ادارے جات اور کمپنیاں وہاں کام کرنے پر راضی ہوں۔ معاشی استحکام اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کیلئے بیرونی سرمایہ کاری ضروری ہے اور اس کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا ۔ اس کیلئے عمران خان حکومت کی سنجیدگی ضروری ہے ۔ صرف بیرونی امداد پر اکتفا ناکافی ہوگا ۔