پانی کا استعمال عالمی ’’یوم ارض‘‘کے تناظرمیں

وسائل حیات میں پانی کی بڑی اہمیت ہے،اس کے بغیرانسانوں اورحیوانوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں۔اللہ سبحانہ وتعالی کی نعمتوں میں ایک اہم ترین نعمت پانی بھی ہے،انسانوں اورجانداروں کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے،زمین پرچلنے والی ہرمخلوق پانی سے پیدا کی گئی ہے(النور:۴۵)اورہم نے آسمان سے بارش برسائی پھراس پانی سے پھلوںکوپیداکیا جوتمہارے لئے اللہ کا رزق ہے‘‘ (البقرہ:۱۶۴)اورہم ہی ہوائوں کوبھیجتے ہیں جوبادلوں کوپانی سے بوجھل کردیتی ہیں پھرہم ہی ہیں جوآسمان سے بارش برساتے ہیں پھر اس سے ہم تم کو سیراب کرتے ہیں اورتم اس کوجمع کرکے نہیں رکھ سکتے تھے(الحجر:۲۲) اورہم ہی نے آسمان سے برسات برساکرہرقسم کے عمدہ جوڑے اُگائے،یعنی ہرقسم کے اجناس ومیوے پیداکئے(لقمان:۱۰) ’’اورہم نے پانی سے بھرے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا تاکہ ہم اس پانی کے ذریعہ دانے یعنی اجناس،نباتات یعنی سبزیاں اورگھنے اورگنجان باغات پیداکریں‘‘(النباء:۱۴۔۱۶) ہرشیٔ کی خلقت اوراس کی نشونمامیں پانی کا اہم رول ہے۔انسانوں کے ساتھ حیوانات،نباتات،جمادات کوئی بھی مخلوق پانی سے بے نیاز نہیں۔اللہ سبحانہ نے قرآن پاک میں اپنی بے شمارنعمتوں کا تذکرہ فرمایاہے،ان نعمتوں میں پانی کی اہمیت وضرورت کا ذکرکرتے ہوئے انسانوں کی بے بسی اوراپنی قدرت کا ذکرفرمایا ہے ’’اچھاتویہ بتلائو جوپانی تم پیتے ہواس کوبادلوں سے تم برساتے ہویا ہم برساتے ہیں؟اگرہم چاہیں تواس کوکھارااورکڑوا کردیں پھرتم شکرگزارکیوں نہیںبنتے؟‘‘(الواقعہ:۶۸۔۷۰)اورجانداروں کے طرح انسان غذاکے ساتھ پانی کا محتاج ہے،غذابھوک مٹاتی ہے توپانی تشنگی بجھاتاہے،پھریہ بھی کہ غذائوں پرمبنی اناج ودانے پھل پھلار، ہری بھری سبزیاںسب کی خلقت ،ان کا وجوداوران کی نشونماپانی پرموقوف ہے،اس کی فراہمی کے ساتھ اللہ سبحانہ نے میٹھے پانی کا وافرمقدارمیں انتظام کررکھاہے تاکہ انسان اوردیگرحیوانات اپنی تشنگی بجھاسکیں۔وہ پانی ہمیں بہتی ندیوں ،دریائوںاورپانی کے کنوئوں اورچشموں سے فراہم ہوتاہے، اللہ سبحانہ کی آسمان سے نازل کردہ باران رحمت کی وجہ سے ۔ان ذخائرمیں میٹھا پانی جمع ہونے کے ساتھ بارش کا اکثرحصہ زمین میں جذب ہوتاہے ،زمین بھی گویا پانی کا ایک قیمتی خزانہ ہے،پانی کے ان سارے ذخائرمیں آسمان سے برسنے والے بارش کی بڑی اہمیت ہے۔پھراس بارش کے نظام کواللہ سبحانہ نے سورج کی کرنوں اورسمندرسے مربوط کر رکھاہے،وہ سمندرجس کا پانی توبڑاکھارا اورکڑواہے ،جس سے جانداروں کی تشنگی بجھنے کا سامان نہیں ہوتا لیکن یہی کھاراپانی سورج کی شعائوں کی تپش سے بخارات میں تبدیل ہوتاہے پھرنظام قدرت سے ہوائیں چلتی ہیں اوروہ بخارات کوآسمان کی بلندیوں تک پہنچاتے ہیںجوبادل بن جاتے ہیں اوریہ بادل رفائنری کا کام انجام دیتے ہیں جس سے کھاراپانی میٹھے پانی میں تبدیل ہوجاتاہے،یہ سارانظام اللہ سبحانہ کی قدرت کا ایک عظیم الشان کرشمہ ہے۔اللہ سبحانہ کی معرفت اوراس پرایمان ویقین کیلئے یہی معجزانہ نظام قدرت ہی کافی ہے،صرف تدبروتفکراورغوروخوض کی ضرورت ہے،وہ انسان جواپنے خالق ومالک کی معرفت سے محروم ہیں اس پرایمان رکھنے کے بجائے معبودان باطل کی پرستش میں زندگی کے قیمتی لمحات گنوارہے ہیں۔بارش کے نظام کواللہ سبحانہ اگر بندکردیںتوکیا ان کے باطل خدائوں میں اتنی طاقت وقدرت ہے کہ وہ آسمان سے بارش برسادیں؟باطل کے پرستاروں کو اللہ سبحانہ نے دعوت غوروفکردیتے ہوئے فرمایاہے’’آپ دریافت کیجئے کہ اچھا یہ توبتائوتمہارا پانی زمین کی انتہائی گہرائی میں اترجائے توپھرکون ہے جوتمہارے لئے میٹھا اور صاف پانی لے آئے؟‘‘(الملک:۳۰)اس آیت پاک کی تلاوت پر حق تویہ ہے کہ ایمان والوںکی زبان سے بے ساختہ ’’اَللّٰہ ُ رَبُّ العاَلمِین‘‘ نکل جائے۔جانداروں کی حیات وزندگی کے ساتھ خشک زمینوں کی زندگی بھی برسات کی رہین منت ہے،زمین جب مردہ ہوجاتی ہے توآسمان سے برسنے والی برسات اس کے حق میں آب حیات ثابت ہوتی ہے،

پھرسے مردہ زمینیں زندہ ہوجاتی ہیں (النحل:۶۵،الزخرف:۱۱،الفرقان،۴۸۔۴۹،فاطر:۲۷،الزمر:۲۱)۔’’اورہرزندہ چیزکوہم نے پانی سے پیداکیاہے کیا یہ لوگ پھربھی ایمان نہیں لاتے‘‘؟(الانبیاء:۳۰)۔اللہ سبحانہ کی الوہیت وربوبیت کے اثبات میں ہوائوں کے چلنے ،بھاری بادلوں کو اُٹھا لیجانے،ان کے ذریعہ بادلوں کے برسنے ،مردہ زمینوں کوزندہ کرکے اس میںروئیدگی وتازگی بخشنے اورانواع واقسام کے غلہ وپھل پیدا کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ سبحانہ نے ایمان کی نعمت سے محروم مردہ دلوں کوپیغام دیاہے کہ جیسے وہ اس پرقادرہے اسی طرح موت کے بعدمٹی میں مل کرخاک یا آگ میں جل کرراکھ ہوجانے والوںکودوبارہ زندہ کرنے اوران سے زندگی کا حساب وکتاب لینے پرقدرت رکھتاہے(الاعراف:۵۷۔۵۸)ان آیات میں تمثیل کی زبان میں نظام قدرت کے تحت پانی کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے ایمان باللہ اور حیات بعدالموت پرایمان کی دعوت دی گئی ہے اورانسانوں کواپنے رب کی شکرگزاری بجالانے کی تلقین کی گئی ہے، الغرض ان آیات کی تلاوت اوراس کے معنی ومفہوم پرتدبروتفکرسے معرفت ربانی کے انوارحاصل ہوسکتے ہیں،روح حلاوت ایمانی سے سرشارہوسکتی ہے۔پانی کی اسی اہمیت کے پیش نظراللہ سبحانہ وتعالی نے انعامات الہی سے بھرپوراستفادہ کرتے ہوئے کھانے، پینے کی ترغیب دی ہے اور حدسے تجاوزکرنے یعنی اسراف سے منع فرمایاہے اورفرمایاہے کہ بے شک اللہ سبحانہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا(الاعراف:۳۱) اسلام میں ضرورت سے زائداوربیجاپانی کا استعمال منع ہے۔سیدنا محمدرسول اللہﷺنے خودپانی کے استعمال میں بڑی احتیاط برتی ہے، آپﷺایک صاع پانی سے غسل فرمالیتے اوراس کے چوتھائی یعنی ایک مُدسے وضوفرمالیا کرتے تھے(مجمع الزوائد:۱۱۰۱)۔صاع کا وزن ۴؍لیٹر۱۲۷؍ملی لیٹراور۳۰؍میکروملی لیٹر،اس کا ربع(مُد)ایک لیٹر۳۱؍ملی لیٹر اور ۸۲۵؍ میکروملی لیٹربتایا گیاہے،واضح الفاظ میں اس کا خلاصہ یہ ہوگا کہ ایک صاع چارلیٹرسے کچھ زیادہ اورایک مدایک لیٹرسے کم زیادہ ہوتا ہے(الاوزان المحمودہ:۳۴)۔ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺایک صاع پانی سے لیکرپانچ مدپانی تک سے غسل فرمالیتے اورایک مدپانی سے وضوفرمالیا کرتے(بخاری:کتاب الوضو)ایک مرتبہ آپﷺنے برتین میں نہرسے پانی لیا،وضوفرمایا پھربچاہواپانی نہرمیں واپس ڈال دیا (حوالہ سابق:۱۱۰۸)آپ ﷺنے ایک صحابی کووضوکا طریقہ بتاتے ہوئے ہرعضوکوتین باردھونے کی ہدایت دی پھرفرمایا اس تعدادسے جوزیادہ یا کم کرے تواس نے اچھا نہیںکیا اورگناہ کا مرتکب ہوا۔حضرت سعدرضی اللہ عنہ وضوکررہے تھے اور پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہورہا تھا، آپﷺنے دیکھاتوفرمایا ’’ یہ اسراف کیا ہے؟’’ ا س پر حضرت سعدنے عرض کیا ،کیا وضومیں بھی اسراف ہوتاہے؟آپﷺنے فرمایا’’ہاں!ہاں کیوں نہیںوضومیں بھی اسراف ہوتاہے اگرچہ کہ تم بہتی نہرہی پرکیوں وضونہ کرو‘‘(ابن ماجہ:۴۲۵)پانی کی اہمیت کے پیش نظراسکے ذخائر کونجاست وگند گی سے آلودہ کرنے کی ممانعت کی گئی ہے ۔ آپﷺنے ماء جاری میں پیشاب کرنے سے منع فرمایاہے(الطبرانی فی الاوسط:۱۷۴۹)پھل داردرخت کے نیچے اورنہرکے کنارے بھی رفع حاجت سے منع فرمایا ہے(حوالہ سابق:۳۹۳۲)ماء راکدیا ماء دائم یعنی ٹھہرے ہوئے پانی میںآپﷺنے غسل جنابت سے منع فرمایا ہے(مسلم:۹۷)بعض وہ چیزیں جن سے پانی ناپاک تونہیں ہوتالیکن دیکھنے والوں کوکراہت ہوتی ہے جیسے پانی میں تھوکنا یا ناک کی ریزش سے آلودہ کرنا یہ بھی کراہت سے خالی نہیں(شامی:۱؍۲۶۰)کرئہ ارض پرانسانی آبادیوں کا روزبروزاضافہ ہے، آبادیوں کے تناسب سے پانی کی ضرورت بھی زیادہ ہوگی ، انسان اپنی بداعمالیوں کی وجہ بے موسم برسات،برسات کی قلت کا شکارہیں۔بعضوں نے مستقبل میں پانی کیلئے جنگوں کی پیش قیاسی کی ہے،اس وقت مختلف ممالک اورمختلف ریاستوں کے درمیان دریائوں ،سمندروں کی تقسیم سے متعلق کشمکش کا سلسلہ جاری ہے۔ماں باپ اوربڑے بزرگوں کی ناقدری ،معصوم نسل نوپربھی ظلم وجبر ، ان کا استبداد و استحصال اوراشیاء ضروریہ کے استعمال میں فطری اصولوں کی خلاف ورزی انسانی معاشرہ کا عام انسانی مزاج بن گیاہے،بظاہراصلاح کے بجائے روزبرورزان میں بگاڑوفسادہی کا سلسلہ جاری ہے،شاید عالمی سطح پرشعوربیداری کیلئے اس جیسے ذکرکردہ خاص عناوین سے منسوب کرکے ’’یوم‘‘ منانے کا رواج چل پڑاہے،چنانچہ عالمی ’’یوم ارض‘‘،’’عالمی تحفظ آب‘‘وغیرہ منائے جاتے ہیں۔ایسے ہی ایک موقع پرمینیجنگ ڈائیرکٹرمیٹروپولیٹین واٹرسپلائی سیوریج بورڈ نے توجہ دلائی ہے کہ تمام شہری ’’ تحفظ آب ‘‘ کیلئے فکرمندہوجائیں تویومیہ بیس میلین گیلن پانی کی بچت کی جاسکتی ہے،اورکہا ہوااورپانی پرزمین پربسنے والے تمام جانداروں کا حق ہے،یہ بھی کہا کہ آنے والے ادوارمیں پانی کیلئے لڑائی کی نوبت آسکتی ہے۔صرف ایک جھیل حسین ساگرکا حوالہ دیتے ہوئے افسوس ظاہرکیا کہ ہماری غفلت وبے توجہی کی وجہ اس کا پانی قابل استعمال نہیں رہا،آئندہ دوسال کے دوران آبی ضرورتوں کوپورا کرنے کی غرض سے یومیہ پچاس لاکھ اورسالانہ ۸۷۰کڑورخرچ کئے جارہے ہیں،اس پانی سے دس تا پندرہ فیصدپانی شہریوں کی لاپرواہی کی وجہ ضائع ہورہا ہے،تخمینہ یہ ہے کہ ہردن دوکڑورلیٹرپانی ضائع ہورہاہے۔یہ ایک بلدی حدودشہرحیدرآباداورریاست تلنگانہ کا ایک سرسری جائزہ ہوسکتاہے لیکن عالمی سطح پرجس بے دردی سے پانی کا ضیاع ہورہاہے وہ لمحہ فکرہے ،اورنعمتوں کے ساتھ پانی جیسی عظیم نعمت سے فائدہ حاصل کرنے کیلئے کرئہ ارض پربسنے والی ساری انسانیت کومعرفت ربانی کی روحانی غذاپہنچانے،مسلمانوں کے اعمال کی اصلاح،تقوی وطہارت سے بھرپورزندگی گزارنے کا عزم وارادہ ضرورت کے مطابق باران رحمت کے بروقت نزول کا باعث بن سکتاہے اوراسلام کے فطری احکام کے مطابق پانی کے استعمال سے ’’تحفظ آب‘‘کا خواب شرمندئہ تعبیر ہوسکتاہے۔