پانچ سال میں 586 ٹرین حادثے

موت کا وقت ٹل نہیں سکتا
ذمہ داری مگر نبھانا ہے

پانچ سال میں 586 ٹرین حادثے
ملک میں ٹرین حادثات کی بدترین تاریخ ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستان کے ریلوے نظام کو سب سے طویل اور بوسیدہ مانا جاتا ہے۔ ریلوے مسافروں کی سلامتی کو یقینی بنانے وزارت ریلوے کی جانب سے ہر سال پیش کئے جانے والے بجٹ میں سیفٹی کے لئے فنڈس مختص کیا جاتا ہے اور خصوصی ٹیکنیکی اقدامات پر توجہ دی جاتی ہے لیکن اس طرح کی تمام تیاریوں کے باوجود جب انسانی غلطی یا لاپرواہی کی وجہ سے ریل حادثہ ہوتا ہے تو اس میں درجنوں اموات ہوتی ہیں۔ سینکڑوں مسافر زخمی ہوجاتے ہیں۔ اترپردیش میں مظفرنگر کے کھتولی موضع کے قریب پوری سے ہری دوار جاری کلنگا۔ اٹکل ایکسپریس کا حادثہ ’’کاشن بورڈ‘‘ پر نوٹس نہیں لئے جانے کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔ اس حادثہ میں دو درجن انسانی جانیں ضائع ہوئیں اور 400 سے زائد مسافر زخمی بتائے گئے ہیں۔ ریلوے پٹریوں کی مرمت کے کام کے دوران ہر اسٹیشن کے قریب کاشن بورڈ لگایا جاتا ہے۔ کلنگا ۔ اٹکل ایکسپریس ٹرین کے ڈرائیور نے اس کاشن بورڈ کا نوٹ نہیں لیا ہے تو اس حادثہ کی اصل وجہ انسانی غلطی ہی سمجھی جائے گی۔ جس ریلوے پٹری پر مرمت کا کام چل رہا تھا وہاں سے ریل گاڑیوں کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے لیکن حادثہ کا شکار ٹرین کی رفتار 105 کیلو میٹر فی گھنٹہ بتائی گئی۔ تیز رفتاری کی وجہ سے بوسیدہ پٹریاں حادثات کا باعث بن گئیں۔ مرمت کے کام میں مصروف ریلوے ملازمین کو ٹرینوں کی آمدورفت کے وقت کاشن بورڈ آویزاں کرنا ضروری ہوتا ہے۔ اس حادثہ کی وجہ یا تو ریلوے ملازم نے کاشن بورڈ آویزاں کرنا بھول گیا یا پھر ڈرائیور بورڈ کو دیکھ نہیں سکا۔ دونوں ہی صورتحال بھیانک ہے۔ اس غلطی کی سزاء مسافروں کو ملی۔ ریلوے ٹریک کے کمزور ناکارہ یا بوسیدہ ہونے کی شکایت کو بروقت جنگی خطوط پر دور کرنے میں کی جانے والی کوتاہیوں سے بھی حادثہ ہوتے رہے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال میں 586 ٹرین حادثے ہونے میں ان میں سے 53 فیصد حادثے ٹرین کے پٹریوں سے اترنے کی وجہ سے ہوئے۔ اٹکل ایکسپریس کا حادثہ تازہ ہے۔ ریلوے نے سیفٹی امور کو عصری بنانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن اس کے باوجود اس طرح کے حادثات وقوع ہوتے آرہے ہیں۔ گذشتہ نومبر 2014ء سے 20 ریلوے حادثے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا ریلوے حادثہ 20 نومبر 2016ء کا ہے جس میں اندور ۔ پٹنہ ایکسپریس کو کانپور کے قریب پٹریوں سے اترنے سے حادثہ نہیں آیا تھا اور اس میں زائد از 150 مسافر ہلاک اور 150 زخمی ہوئے تھے۔ مرکز میں مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے انسانی جانوں کے اتلاف پر اپنی ذمہ داریوں کو فراموش کردیا ہے خاص کر وزیر ریلوے سریش پربھو کو اٹکل ایکسپریس حادثہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کی ضرورت تھی۔ اس حادثہ کو مودی حکومت کسی سبوتاج کا نام نہیں دے سکتی کیونکہ یہ حادثہ سراسر لاپرواہی اور غلط انتظامی اقدامات کا نتیجہ مانا جارہا ہے۔ ریلوے سیفٹی کیلئے بجٹ میں اضافہ کرنے کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے۔ مودی حکومت ملک میں بلیٹ ٹرین چلانے کا منصوبہ رکھتی ہے مگر اس حکومت سے معمول کی ٹرین سرویس چلائی جا نہیں رہی ہے… اس حادثہ کی وجہ یہی سامنے آئی ہے کہ سیفٹی اصولوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ اپوزیشن پارٹیوں نے تنقید کی کہ حالیہ برسوں میں ہونے والے ٹرین حادثوں سے واضح ہوتا ہیکہ وزیر ریلوے پربھو اور ریلوے حکام نے لاپرواہی اور فرائض سے غفلت کا نیا ریکارڈ قائم کرلیا ہے اگر وزیر ریلوے کو ریلوے مسافروں کی سلامتی اور محفوظ سفر کو یقینی بنانا ہے تو عصری ٹیکنالوجی کے ساتھ سیفٹی کے مؤثر اقدامات کرنے ہوں گے۔ بلیٹ ٹرین کا خواب دیکھنے والی مودی حکومت میں 27 ٹرین حادثے ہوچکے ہیں۔ اگر اسی طرح ٹرین سے بڑے حادثے رونام ہوتے رہیں تو بلیٹ ٹرین کا منصوبہ مشکوک بن جائے گا۔ گذشتہ 15 ماہ کے دوران ہی اترپردیش میں 6 بڑے ٹرین حادثے ہوتے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے ہر حادثہ کے بعد ریلوے وزارت اور حکام اپنی ذمہ داریوں سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ لیکن اُنھیں یاد رکھنا چاہئے کہ موت کا وقت اٹل ہونے کے بہانے اپنے فرائض سے لاپرواہی نہیں برتی جاسکتی اور نہ ذمہ داریوں سے ہاتھ اُٹھایا جاسکتا ہے۔