پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے

محمد یوسف
فسطائی اور فاشسٹ طاقتیں ایک منظم منصوبہ کے تحت مسلمانوں کے خلاف معاشی، سماجی، مذہبی، فرقہ واری اور علاقہ واری بنیادوں پر منافرت پھیلاکر، مسلمانوں کو ہر شعبۂ زندگی میں کمزور کردینا چاہتی ہیں۔ جنگ احد ہو کہ جنگ بدر، ایک قلیل عرصہ کیلئے تھیں، لیکن مسلمان اب پوری دنیا میں سال کے بارہ مہینے کہیں نہ کہیں جنگ کی حالت میں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صلیبی جنگوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جس طرح بغداد میں اسلامی اقدار اور مذہبی شناخت کو ختم کرنے کیلئے منگولوں نے عیسائی اور یہودی طاقتوں سے مل کر متحدہ طورپر جنگ لڑی تھی اور اسلامی اقدار و شناخت کو تباہ و برباد کردیا تھا، پھر ایک بار پوری دنیا میں یہی طاقتیں متحدہ طورپر اسلامی اقدار اور مسلم ممالک کو کمزور کرنے یا پھر اپنے زیر اثر لانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ منگولوں نے ایک بڑی فوجی طاقت کے ذریعہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی تھی۔ عباسی خلیفہ المنصور نے ۷۶۲ء میں بغداد کی تعمیر کی تھی اور اسے ایک طاقتور مسلم مملکت بنادیا تھا، جو علم و ہنر کا گہوارہ تھا۔ اسی لئے بغداد کو ’’عقل کا مسکن‘‘ کہا جاتا تھا۔

مسلمانوں کی ترقی دشمنان اسلام کو ناگوار گزری اور منگولوں نے اسے برباد کرنے کے لئے ڈیڑھ لاکھ طاقتور فوج کی مدد سے بغداد پر حملہ کردیا۔ چوں کہ منگول علم سے نابلد تھے، ان کا کام صرف ممالک فتح کرنا اور دولت جمع کرنا تھا۔ بغداد کو اس طرح برباد کیا کہ بغداد کی تمام لائبریریوں کو جلاڈالا، اس طرح جلی ہوئی کتابوں کی راکھ اور سیاہی سے دریائے دجلہ اور فرات کا پانی سیاہ ہو گیا تھا۔ صرف دو ہفتوں کی جنگ میں تاریخی حقائق کے مطابق مقامی خلیفہ اور اس کے خاندان سمیت آٹھ تا دس لاکھ افراد مارے گئے۔ بغداد کی گلیاں سنسان ہو گئیں، انسانی آبادی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا۔ اسی زمانے میں عالمی شہرت یافتہ سیاح ابن بطوطہ بھی بغداد میں قیام پزیر تھا، اس نے بھی ہلاکوں خاں کے ہاتھوں ڈھائی جانے والی تباہ کاری کا مشاہدہ کیا تھا۔

پھر اللہ تعالی کی قدرت نے اپنا کام کرنا شروع کیا۔ جب ہلاکوں خاں بغداد کو فتح کرنے کے بعد واپس اپنے ملک لوٹ رہا تھا، دوران سفر بخارا میں قیام پزیر ہوا۔ اس دوران وہاں مسلمانوں سے اس کی ملاقاتیں ہوئیں، بڑے بڑے علمائے دین سے اس نے دین اسلام کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کیں اور پھر سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جانکاری حاصل کی۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی اقدار نے اسے اتنا زیادہ متاثر کیا کہ نہ صرف وہ بلکہ اس کے ساتھ پوری فوج نے اسلام قبول کرلیا۔ بقول شاعر’’پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے‘‘۔ بس یہی اللہ تعالی کی حکمت ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ دین اسلام کو کس طرح قائم رکھنا ہے۔ اپنی تو بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالی دین اسلام کو سربلندی عطا فرمائے اور اس کی حفاظت فرمائے۔ (آمین)
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، فلسفہ زندگی ہے اور انسانی زندگی کے ہر شعبہ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ اسی لئے جاہل اور تعلیم یافتہ ہر دو طبقہ اسلامی تعلیمات اور اسلامی نظام حیات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اسلام کا یہ واضح چیلنج ہے۔موجودہ دور میں تمام یہودی، عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے متحدہ طورپر اسلام سے نبرد آزما ہیں۔ چوں کہ یہ سب ایک منظم سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کام کر رہے ہیں اور ان کے پاس وسائل اور دولت کی فراوانی بھی ہے، اس لئے انھیں فی الحال کامیابی نظر آرہی ہے۔ یہ سب اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں، لیکن باطل طاقتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی کی چال سب سے الگ اور جداگانہ ہے۔ اللہ تعالی ظالم کو ایک حد تک چھوٹ دیتا ہے، لیکن جب وہ پکڑتا ہے تو پھر اس کی پکڑ سے کوئی بچ نہیں سکتا، بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’مجھے ہند سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں‘‘۔ یہ بات چوں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلی تھی، یقیناً ایک دن پوری ہوکر رہے گی، لیکن ہم مسلمانوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم متحدہ طورپر ایک مرکزی قیادت اسلامی اصولوں کے تحت قائم کریں۔ واضح رہے کہ اسلام کا فلسفۂ حیات مرکزیت اور اجتماعیت پر قائم ہے، دنیا کی کوئی طاقت اسلام اور مسلمانوں کو زیر نہیں کرسکتی۔
اسلام کا یہ طرہ امتیاز اور خصوصیت ہے کہ جن جن لوگوں نے اسلام کی شدت سے مخالفت اور مذمت کی، اتنی ہی شدت سے وہ اسلام کے دائرے میں شامل ہو گئے۔ بس ہم مسلمانوں میں اتحاد کی، فراست کی، مضبوط منصوبہ بندی کی اور اسلام کے اخلاق حسنہ و احترام انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے، لہذا ایک داعی کی حیثیت سے موعود کیلئے خیرخواہی کاجذبہ لے کر اسلامی دعوت کو ان کی دہلیز تک پہنچایا جائے اور شدت غضب میں بے قابو ہونے سے اجتناب کیا جائے۔ یقیناً ایک عظیم منزل پانے کے لئے صبر اور ثابت قدمی کی شدید ضرورت ہے۔