پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا رول

الفاظ کی ضربات سے کردیتا ہے گھائل
لڑتا ہے مگر ہاتھ میں تلوار نہیں ہے
پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا رول
پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جانب سے مسلسل ہنگامہ آرائی اور شور وغل کے باعث کارروائی میں خلل پیدا ہونا قیمتی وقت کو ضائع کر دینے کے مترادف ہے ۔ ایوان کی کارروائی کو چلنے نہ دینے کا یہ رجحان افسوسناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کے دوسرے حصہ میں اپوزیشن نے حکومت کے خلاف اپنے احتجاج میں شدت پیدا کرکے اپنی بات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں پارلیمنٹ میں پورا ایک ہفتہ کوئی کام کاج نہیں ہوسکا ۔ نائب صدر جمہوریہ و چیرمین راجیہ سبھا ایم وینکیانائیڈو نے اپوزیشن ارکان کے اس رویہ پر تنقید کی اور کہا کہ اگر اپوزیشن کا یہی رویہ رہا تو پھر سیاستدانوں پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائیگا ۔ سوال یہ ہے کہ آیا پارلیمنٹ میں جو بھی پارٹی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتی ہے وہ حکومت کے خلاف آواز اٹھا کر شور و غل مچاتی ہے اور ماضی میں یہی کام بی جے پی نے کیا تھا ۔ اب مرکز میں بی جے پی کی حکومت ۔ ہے تو اپوزیشن کے طور پر کانگریس اور دیگر پارٹیوں نے وہی رویہ اختیار کیا ہے جو کل تک بی جے پی کیا کرتی تھی ۔ اس طرح کا رجحان پارلیمان اقدار کے مغائر ہے ۔ پارلیمنٹ کی کارروائی دراصل عوام کو درپیش مسائل پر غور و خوض کرنے اور اس کا حل نکالنے کے لئے چلائی جاتی ہے لیکن ارکان پارلیمنٹ عوام کے حق میں اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ۔ پارلیمنٹ کے اندر اور ان دنوں دیکھا جا رہا ہے کہ ہر صبح دونوں ایوانوں کی کارروائی شروع ہونے کے چند منٹوں میں ہی ہنگامہ آرائی ہوتی ہے ۔ اپوزیشن ارکان مختلف وجوہات کے لئے ایوان کے وسط میں پہنچ کر شور وغل نعرہ بازی کرتے ہیں ایسے میں عوام کو درپیش اہم مسائل کو اٹھانے کا موقع ہی نہیں ملتا ۔ حکومت بھی کسی بھی موضوع پر وسیع تر بحث و اتفاق رائے کے ذریعہ قانون سازی سے قاصر رہتی ہے ۔ اپوزیشن کی بھاری ذمہ داری ہوتی ہے کہ اسے عوام کی خاص نمائندگی کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن اپنے ذاتی مفادات کی خاطر وہ عوامی مفادات کو نظرانداز کر کے پارلیمنٹ میں بحث کرنے کے بجائے واک آوٹ کرتی ہے یہ ناقابل ترید حقیقت ہے کہ بی جے پی جس وقت اپوزیشن میں تھی ایوان کی کارروائی میں خلال پیدا کرتی رہی اور کانگریس اپوزیشن میں ہے تو یہی رول ادا کرنا شروع کیا ہے ۔ حکومت پر ممکنہ طور پر ایوان کی کارروائی کو پرسکون طریقہ سے چلانے کی توثیق کرتی ہے ۔ اس کے باوجود وہ ناکام ہوجاتی ہے ۔ پارلیمنٹ میں اس وقت سب سے اہم موضوع بدعنوانیاں اور اسکامس پر بحث کرنے کا ہے ۔ پنجاب نیشنل بینک اسکام پر حکومت کو جوابدہ بنانا ہے لیکن اپوزیشن پارٹیاں اس موضوع پر جارحانہ موقف اختیار کر کے حکومت کو بیدخل کر دینے کے جذبہ کے ساتھ مسئلہ کو اٹھانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ حکومت کو بھی یہ احساس ہونا چاہئے کہ اپنے ایوان کے اندر دیانتدارانہ طریقہ سے بینک دھوکہ دہی پر ۔۔۔ بحث و مباحث کرے ۔ لیکن اب پارلیمنٹ بجٹ سیشن کے دوسرے مرحلہ کا ایک ہفتہ بُری طرح ضائع ہوگیا ہے ۔ اس ہفتہ بھی اگر بجٹ سیشن کو بینک اسکامس ‘ آندھراپردیش کو خصوصی موقف نہ دینے کے مسئلہ اور کاویری تنازعہ پر احتجاج کی نذر کیا گیا تو یہ ملک بھر کے عوام کے حق میں بڑی بدبختانہ کارروائی ہوگی ۔ لہذا وزیراعظم نریندر مودی کو فوری قدم اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کو اعتماد لیکر ایوان کی کارروائی کو ۔۔۔ طریقہ سے چلانے میں تعاون کرنے کی خواہش کرنی چاہئے ۔ اپوزیشن کے الزامات پر کہ بینکو ں میں اسکامس اور رافیل لڑاکا جٹس کی خریداری میں بڑے پیمانے پر مبینہ دھاندلیاں ہوئی ہیں کا جواب دینا چاہئے ۔ پارلیمنٹ میں موجود تعطل کے لئے مرکز کی بی جے پی زیر قیادت حکومت کو ہی ذمہ دار ٹہرا کر سابق صدر کانگریس سونیاگاندھی نے سابق کی اٹل بہاری واجپائی حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کے تعطل کو ختم کرنے کے لئے کئے گئے اقدامات کا حوالہ دیا ہے ۔ اس لئے مودی حکومت کو چاہئے کہ وہ اپوزیشن سے راست بات چیت کرے ۔ لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مودی حکومت بھی اپوزیشن کو خاطر لانے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ اس طرح کا سخت رویہ حکومت کے لئے مناسب نہیں ہے ۔