پارلیمنٹ مانسون سیشن

آج پھر وقت کی آنکھوں میں لہو اترا ہے
کوئی تاریخ نہ دہرا دے سکندر بن کر
پارلیمنٹ مانسون سیشن
پارلیمنٹ کے ہر سیشن کا اختتام ایک جیسا ہی معلوم ہو تا ہے۔ کوئی ٹھوس کاررروائی نہیں ہوتی۔ صرف چند ایک بلوں کی منظوری اور اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی، عوامی مسائل پر توجہ دینے سے حکومت کی کوتاہی نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ جاریہ پارلیمنٹ کا مانسون سیشن بھی اسی طرز پر اختتام پذیر ہوا۔ پارلیمنٹ نے آخر کتنے بل منظور کئے اور ان بلوں کا حشرکیا ہوگا یہ ہر ایک سیشن کے بعد کی غیرمختتم کہانی بن جاتی ہے۔ اس سیشن میں بھی دونوں ایوان میں 34 بلوں کے منجملہ صرف 13 بلوں کو منظور کیا جاسکا۔ 19 روزہ یہ سیشن متوفی ارکان کو خراج پیش کرنے کے ساتھ حکمراں طبقہ کی عوامی مسائل کی جانب عدم کارکردگی کا بھی مظہر ثابت ہوا۔ پارلیمانی سیشن کے دوران لوک سبھا میں ملک کی نازک صورتحال پر غوروخوض کیا گیا خاص کر ہجوم کی جانب سے مسلمانوں پر حملے اور زدوکوبی کے اموات پر اپوزیشن نے ایوان کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی۔ ایک طرف پارلیمنٹ کی کارروائی کو پرامن طریقہ پر چلانے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف اپوزیشن پارٹیوں نے کئی موقعوں پر کارروائی روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس سیشن میں اپوزیشن کا موقف صفر دکھائی دیا جبکہ بی جے پی نے اپنے وجود کو مزید قوی کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ بدقسمتی سے ہندوستان کے عوام پر ایک ایسی طاقت کو مسلط کرلیا گیا ہے جو خاص فکر و سوچ کی حامل ہے اور اس کی سوچ سے پھوٹ پڑنے والی پالیسیوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کردیا ہے۔ یہ بات تاریخ کے آئینہ سے ثابت ہے کہ اقتدار جس کا ہوتا ہے اس کی خرابیوں کو بھی اچھائیوں کی نظر سے دیکھنے والے ٹولے وجود میں آتے ہیں۔ ان دنوں ملک بھر میں یہی سب کچھ ہورہا ہے۔ جو لوگ خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں ان پر ملک دشمن کا لیبل لگایا جارہا ہے تاکہ کوئی اور حکومت کے خلاف اظہارخیال یا ریمارکس کی ہمت نہ کرسکے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی کا حلف لیا جانا پارلیمانی جمہوریت پر ایک سوالیہ نشان چھوڑا ہے۔ ویسے یہ ہر کوئی جانتا ہیکہ اقتدار پر آنے کے بعد اس طاقت کی پوجا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ مرکزی اقتدار کی قوت منفرد ہوتی ہے۔ موجودہ مرکزی قیادت کے کٹر پسندانہ زعفرانی رجحانات نے فرقہ پرستوں کو اپنی طرف متوجہ کیا تو آج ملک نفرت کی آگ میں جل رہا ہے۔ آگے چل کر ایک مخصوص ذہن کے ٹولے سرگرم ہوں گے اور یہ ٹولے وزیراعظم کے بہت قریب آجائیں گے۔ پورے ملک کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ ایسی صورتحال شاید پہلے کبھی ہوتی ہو اور ہر پہلو سے فرقہ پرستی کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ مرکزی قیادت اور اس کے ٹولے ایسا لگتا ہے کہ انہیں ملک کے سارے مسائل کا حل مسلمانوں کو نشانہ بنانے، بابری مسجد کا مسئلہ زندہ رکھنے اور رام مندر کی تعمیر کی ہوائی باتیں کرنے اپوزیشن کو ذلیل و خوار کرنے میں ہی نظر آتا ہے۔ برسراقتدار پارٹی کے کسی بھی سیاسی لیڈر کو دیکھیں اسے بس ایک ہی کام ہے یعنی مسلمانوں کو برا کہو اور اپنے مخالفین میں کیڑْ نکالو۔ لمبی لمبی زبان والوں نے گذشتہ 3 سال کے دوران اودھم مچا رکھی ہے۔ پارلیمانی سیشن کے آنے اور چلے جانے کے درمیان کوئی ہندوستانی ثقافتی مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن نے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات 2019ء تک عوام میں یہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ملک کی باگ ڈور یوں ہی زعفرانی قوتوں کے ہاتھ ہوگی تو آنے والے برسوں میں ملک کی اقلیتوں کو مزید شدت سے نشانہ بنایا جائے گا۔ یہ اس لئے ہوگا کیوں کہ ملک کی اقلیتوں نے بھی اپنی اپنی پسند کی پارٹیوں کو ووٹ دے کر ملک کی رائے عامہ کو کمزور کردیا ہے۔ اس کے بعد ان پر جو طاقت مسلط ہوگی یہ تو آج سب پر عیاں ہے۔ ملک میں حالیہ چند مہینوں میں کئی اسکینڈلس ہوئے ہیں مگر نہ کسی کو سزاء ہوئی اور نہ ہی کوئی حکمراں طبقہ کا فرد بے نقاب ہوا۔ یہ ہے حکمراں کی طاقت ہے جو قانون، عدلیہ اور عوامی رائے پر غالب آچکی ہے۔ بہرحال ملک میں جاری یہ پستی کہاں تک پہنچے گی اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی۔
ہندوستان کے خلاف چین کی نفسیاتی جنگ
چین آخر ہندوستان کے ساتھ میدانی جنگ سے زیادہ نفسیاتی جنگ کو ترجیح کیوں دے رہا ہے؟ ڈوکلم تعطل کے حوالے سے چین نے ہندوستان کو 1962 کی جنگ کے نتائج کے تعلق سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی ہیکہ اگر ہندوستان نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ ہر گذرتے دن کے ساتھ جارحانہ موقف اختیار کرے گا۔ فوجی کارروائیوں کی سنگینوں کے حوالے سے ہندوستان کو ڈرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح ہندوستان نے نرم موقف اختیار کرلیا ہے۔ مرکزی بی جے پی حکومت نے ہند ۔ چین کے درمیان گذشتہ 50 دن سے جاری کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی ہے۔ چین نے ڈوکلم علاقہ کو اپنا علاقہ قرار دیا ہے جبکہ ہندوستان کی فوج اس علاقہ میں تعینات ہے۔ ہندوستان کے لئے یہاں حکمت عملی کے مفاد میں چین کو اس خطہ میں سڑکوں کی تعمیر سے روکنا ضروری ہے۔ اگر چین نے سڑکوں کی تعمیر پوری کرلی تو پھر وہ ہندوستان کے اہم علاقوں کو اپنا قرار دینے کا بے شرمانہ اعلان کرے گا۔ چین نے بظاہر اچھے پڑوسی کا ثبوت دینے کا ادعا کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندوستان پر غیرمعمولی طور پر نفسیاتی دباؤ بھی ڈال رہا ہے۔ ہندوستان کے پاس سوائے پرامن احتجاج کرنے کے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے تو پھر ڈوکلم تعطل کا انجام ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی شکل میں سامنے آئے گا۔ چین کو جنگی ہیجان پیدا کرنے سے باز رکھنے کیلئے ضروری ہیکہ چین کے تمام خطرات کا جائزہ لے کر ثابت و مضبوط قدمی سے نفسیاتی جنگ کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ ڈوکلم تنازعہ کو صرف سفارتی چیانل کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہر کس چوٹی کانفرنس میں ہندوستان کو علاقائی اور عالمی باہمی مسائل کو اٹھانا چاہئے۔