یوگی راج میں بچوں کی اموات

اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت میں سرکاری دواخانے بچوں کا قبرستان بنتے جا رہے ہیں اوریہاں معصوم بچوں کو آکسیجن تک دستیاب نہیں ہوئی ہے ۔ آدتیہ ناتھ کی حکومت میں چار دن کے اندر 63 بچے ابدی نیند سوگئے اور انہیں حکومت اور سرکاری حکام کی جانب سے آکسیجن تک فراہم نہیں کیا جاسکا ۔ یہ حکومت کی مجرمانہ غفلت ہے اور اس پر حکومت اور اس کے ذمہ داروں اور دواخانہ کے حکام کے خلاف فوجداری مقدمات تک درج کئے جانے چاہئیں۔ یہ کسی مذہب کا یا کسی ذات پات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ساری انسانیت کا مسئلہ ہے اور معصوم شیر خوار بچوں کی موت نے کئی ماووں کی گود اجاڑ دی ہے ۔ ان کا قصور اتنا ہی تھا کہ وہ غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے والدین کے پاس ان کے علاج و معالجہ کیلئے کوئی دولت موجود نہیں تھی ۔ پہلے تو یہ مسئلہ کسی بھی کی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا لیکن جب دھیرے دھیرے میڈیا کے اور عوامی فورموں میں اس پر توجہ دلانے کی کوششوں کا آغاز ہوا اور حکومت کو خواب غفلت سے بیدار کرنے میں کامیابی ہوئی تو حکومت نے محض دکھاوے کے طور پر اس میڈیکل کالج کے پرنسپل کو معطل کرنے کی کارروائی کی اور حکومت کو اس سے بری الذمہ قرار دینے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ مرکزی حکومت نے بھی صرف ضابطہ کی تکمیل کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اترپردیش میں بی جے پی کی حکومت ہے اور یہ ایسی ریاست ہوگئی ہے جہاں گائے کے تحفظ کیلئے قانون بنائے جاتے ہیں اور بیف کھانے والوں کو سخت سزائیں دی جاتی ہیں لیکن معصوم بچوں کو آکسیجن فراہم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ اترپردیش میں گائے کیلئے تو ایمبولنس سرویس شروع کردی گئی ہے لیکن آکسیجن فراہمی کیلئے کوئی توجہ نہیں ہے ۔ مزید حیرت تو اس بات پر ہے کہ اس سارے معاملہ کی انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے مختلف عذر پیش کئے جا رہے ہیں اور حکومت کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مرکزی حکومت نے بھی ریاستی حکومت کی سرزنش کرنے اور جواب طلب کرنے کی بجائے ایسا رویہ اختیار کیا ہے جس سے ریاستی حکومت کو بچانے میں آسانی ہو۔ اس کو ذمہ دار قرار دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے
مرکزی وزرا اور دوسرے عہدیدار ریاست کا دورہ کرتے ہوئے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور صرف ضابطہ کی تکمیل میں لگے ہوئے ہیں۔ اترپردیش کے وزیر صحت نے انتہاء یہ کردی کہ وہ ان بچوں کی اموات کی وجہ آکسیجن کی عدم فراہمی فراہمی نہیں بلکہ دیگر امراض قرا ر دے رہے ہیں۔ انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ان بچوں کو مختلف طرح کے جان لیوا امراض کا سامنا ہی تھا جس کی وجہ سے انہیں آکسیجن کی ضرورت تھی ۔ اگر یہ بچے صحتمند ہوتے یا پھر انہیں کوئی معمولی امراض لاحق ہوتے تو پھر آکسیجن کی ضرورت ہی کیوں پڑتی ۔ سرکاری دواخانوں میں ہزاروں بچے معمولی اور چھوٹے موٹے امراض کیلئے رجوع ہوتے ہیں اور ان میں بھی اگر کسی کو شدت ہوتو ہی دواخانوں میں شریک کیا جاتا ہے ۔ اسی صورت میں آکسیجن کی ضرورت لاحق ہوتی ہے ۔ مرکزی وزیر صحت جے پی نڈا نے گورکھپور کا دورہ کیا اور وہاں انہوں نے ریسرچ سنٹر قائم کرنے کا اعلان کردیا ۔ انہوں نے بچوں کی اموات پر کوئی ریمارک یا تبصرہ کرنے یا کسی سے جواب طلب کرنے اور کسی کو ذمہ دار قرار دینے کی کوشش نہیں کی ۔ ریاستی حکومت نے محض ضابطہ کی تکمیل کیلئے میڈیکل کالج کے پرنسپل کو معطل کردیا اور بس۔ یہ حکمرانی کا صحیح طریقہ نہیں ہے ۔ یہ انسانی جانوں سے کھلواڑ ہے اور معصوم بچوں کا غفلت میں قتل ہے ۔ اس کے ذمہ داروں کی شناخت کرتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے ۔ حکومت صرف ضابطہ کی تکمیل کرتے ہوئے یا اپنی لا پرواہی کی پردہ پوشی کرتے ہوئے بری الذمہ نہیں ہوسکتی ۔
معصوم اور شیر خوار بچوں کی اموات کا یہ واقعہ اگر کسی غیر بی جے پی اقتدار والی ریاست میں پیش آتا تو اسی بی جے پی کے قائدین اور اس کے ہمنوا میڈیا گھرانوں کی جانب سے طوفان کھڑا کردیا جاتا لیکن آج سبھی کو سانپ سونگھ گیا ہے ۔ کوئی دکھاوے کے آنسو بہانے تک کو تیار نہیں ہے ۔ یہ حکمرانی کا نشہ اور تکبر ہے ۔ انسانی جانوں سے کھلواڑ اور درجنوں بچوں کے موت کی نیند سوجانے کے باوجود ان کے غرور و تکبر میں کوئی کمی نہیں آ رہی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یو پی حکومت ہو یا مرکزی حکومت ہو وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ گائے کے تحفظ اور اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کی پالیسیوں کو چھوڑ کر سارے ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے اقدامات پر توجہ دی جائے ۔ نزاعی مسائل کے سہارے سیاست کا سلسلہ روکے اورفلاحی اقدامات پر توجہ دی جائے ورنہ انہیں ان ہی رائے دہندوں کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہونے کیلئے تیار رہنا پڑیگا جنہوں نے انہیں اقتدار کی کرسی بخشی ہے ۔