پارلیمنٹ سشن ضائع ‘ جمہوریت کا مذاق

گرمیٔ گفتارِ اعضائے مجالس الاماں
ایسا لگتا ہے کہ گویا ہے یہ جنگ زرگری
پارلیمنٹ سشن ضائع ‘ جمہوریت کا مذاق
پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا آج اختتام عمل میں آگیا ۔ بجٹ سشن کے دوسرے نصف میں صرف اپوزیشن کی ہنگامہ آرائی اور حکومت کی مقصد براری کے کوئی کام نہیں ہوا ہے ۔ یہ سشن کا ایسا حصہ رہا جہاں اپوزیشن نے اپنے احتجاج کے ذریعہ حکومت کو بچانے کا کام کیا ہے اورا س کوکئی مشکلات اور الجھن آمیز صورتحال کا سامنا کرنے کی خفت سے بچالیا ۔ اس سشن میں سرکاری کام کاج بالکل بھی نہیں ہوسکا ہے اور حکومت نے ساری صورتحال کا سیاسی استحصال کرتے ہوئے نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد پر مباحث ہی ہونے نہیں دئے بلکہ ملک کے 130 کروڑ عوام کیلئے پیش کردہ لاکھوں کروڑ روپئے کے بجٹ کو کسی مباحث کے بغیر ہی منظور کروالیا ۔ یہ سب کچھ ایسی صورتحال ہے جس سے ہماری جمہوریت کا مذاق بنتا ہے ۔ اس سے جمہوریت کو درپیش خطرات میں اضافہ ہوا ہے ۔ پارلیمنٹ وہ ادارہ ہے جو جمہوریت میں انتہائی اہم مقام رکھتا ہے ۔ اس ادارہ کے تقدس اور احترام کی ذمہ داری حکومت اور اپوزیشن جماعتوں سبھی پر عائد ہوتی ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ادارہ کو بھی اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی نے سیاسی اکھاڑہ میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جہاں ایک دوسرے کو پچھاڑتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل پر ہی ساری توجہ دی جا رہی ہے ۔ اس پر ملک کے عوام کو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ جمہوریت کے نام پر ووٹ دئے جاتے ہیں اور جمہوری عمل کا حصہ رہتے ہوئے یہی لوگ عوام کے گھروں پر پہونچ کر ان سے ووٹوں کی بھیک مانگتے ہیں اور جب انہیں ووٹ مل جاتے ہیں تو پھر وہ خود کو جمہوریت کو تار تار کرنے کا سبب بنانے سے بھی گریز نہیں کرتے ۔ حکومت کے ارکان ہوں یا اپوزیشن کے ارکان ہوں کسی کو اس بات کی تک پرواہ نہیں ہے کہ ملک کے عوام انہیں دیکھ رہے ہیں اور جمہوریت میں ان کا یقین ایسے رویہ کی وجہ سے متزلزل ہوسکتا ہے ۔ لیکن انہیں سوائے اپنے مفادات کی تکمیل کے اور اپنی مقصد براری کے کوئی اور فکر لاحق نہیںرہ جاتی ۔ اقتدار پر برقراری کیلئے جہاں حکومت کوئی بھی ہتھکنڈہ اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتی اور کسی بھی حد تک جاسکتی ہے وہیں اپوزیشن بھی محض دکھاوے کیلئے نمود کی ہنگامہ آرائی کو ہی اپنا فریضہ سمجھنے لگی ہے ۔
بجٹ سشن کا دوسرا نصف تو انتہائی مایوس کن رہا ہے ۔ یہ سشن ہی بجٹ کیلئے تھا اور انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ بجٹ پر ہی ایوان میں کوئی مباحث نہیں ہوسکے ۔دوسرے امور تو کہیں پس منظر میں چلے گئے ۔ حکومت نے بھی اپنے مطلب کو اہمیت دیتے ہوئے بجٹ منظور کروالیا اور اس نے بھی بجٹ پر مباحث کو ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی اپوزیشن کی کوئی تجاویز طلب کی گئیں۔ پارلیمنٹ میں حکومت کو نشانہ بنانا اور احتجاج کرنا اپوزیشن کا کام ہے اور یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اپوزیشن نے ایسی ہنگامہ آرائی کی ہو لیکن ماضی کی کئی مثالیں موجود ہیں جب اپوزیشن کی جانب سے ایوان کے کام کاج کو عملا ٹھپ کردیا گیا تو حکومت نے اس کے ساتھ بات چیت کی راہ اختیار کی ۔ اس کو ایوان میں نظم بحال کرنے میں تعاون کرنے کی خواہش کے ساتھ اعتماد میں لیا تھا ۔ اسپیکر کے ذریعہ ایسے اجلاس منعقد کئے گئے ۔ خود پارلیمانی امور کے وزیر اس میں پیش پیش رہے اور وزیر اعظم بھی اس میں اپوزیشن سے بات چیت کرسکتے تھے لیکن بجٹ سشن کے معاملہ میں ایسا کچھ نہیں ہوا اور جہاں اپوزیشن نے ہنگامہ کیا وہیں حکومت کا بھی رویہ یہی تھا کہ وہ خود بھی نہیں چاہتی کہ ایوان میں کوئی کارروائی ہو اور اسے عوامی مسائل پر ارکان کے سوالات کے جواب دینے پڑ جائیں۔ حکومت اپنا بجٹ منظور کروانا چاہتی تھی اور اس میں اس نے کامیابی حاصل کرلی ۔ بلکہ آخری ایام میں تو خود حکومت نے بعض اپوزیشن نما جماعتوں سے احتجاج کرواتے ہوئے خود کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے بچالیا ۔ یہ احتجاج حکومت کی ایما پر ہی کیا گیا تھا ۔
پارلیمنٹ بجٹ اجلاس میں جملہ 250 گھنٹے ضائع کردئے گئے ۔ اس دوران ہنگامہ آرائی شور شرابہ ‘ ایوان کی کارروائی میں خلل کے سوا کوئی اور کام نہیں ہوسکا ۔سب سے زیادہ سنگین مسئلہ بجٹ پر مباحث نہ ہونے کا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو اس طرح کے غیر معمولی عمل کی اہمیت کا تک اندازہ نہیں ہے ۔ اسے اس بات کی کوئی فکر نہیںہے کہ بجٹ کو مباحث کے بغیر منظور کروالیا گیا ہے ۔ کچھ علاقائی جماعتوں نے حکومت کی مخالفت کے نام پر حکومت کو بچانے کا جو کام کیا ہے وہ بھی سب پر عیاں ہوگیا ہے ۔ تحریک عدم اعتماد ایک ایسا ہتھیار تھا جس سے حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ کیا جاسکتا تھا ۔ حالانکہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن اس کے سیاسی اثرات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور ٹی آر ایس و انا ڈی ایم کے جیسی جماعتوں نے حکومت کی مخالفت کے نام پر حکومت کو بچانے کا کام کیا ہے ۔ بحیثیت مجموعی پارلیمنٹ بجٹ سشن کا دورہ حصہ مایوس کن ہی رہا ہے ۔