پارلیمانی انتخابات میں روس کی مداخلت ؟

ساتھ جب دے نہ سکی اپنی شکستہ پائی
ایک منزل سے چلے دوسری منزل سے ملے
پارلیمانی انتخابات میں روس کی مداخلت ؟
لوک سبھا انتخابات میں جنوبی ہند کی دو ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش کو کافی اہمیت حاصل ہوئی ہے جیسا کہ 2004ء اور 2009ء کے انتخابات میں بھی جنوبی ہند کا ووٹ مرکزی حکومت کیلئے اہم تھا۔ اگرچیکہ اسی وقت قومی پارٹیوں کی توجہ ملک کی بڑی ریاستوں اترپردیش، بہار، مہاراشٹرا اور مغربی بنگال پر مرکوز ہے لیکن جنوبی ہند کے مرکز میں حکومت سازی کیلئے اہم رول ادا کیا ہے۔ آندھراپردیش کے علاوہ ٹاملناڈو نے قومی سیاسی تصویر میں رنگ بھرنے میں مؤثر طریقہ سے حصہ لیا ہے۔ اس مرتبہ بھی اگر آندھراپردیش کی حکمراں پارٹی تلگودیشم کو ووٹ ڈالے گئے ہیں تو چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو صدر تلگودیشم کی حیثیت سے اپنی پارٹی کی جانب سے مرکز میں سیاسی محور بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے لیکن چندرا بابو نائیڈو کو شاید یہ اندیشہ ہوگیا ہیکہ جاریہ انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی جارہی ہیں۔ ای وی ایم مشینوں سے چھیڑچھاڑ کی شکایات اور اعتراضات کے درمیان چندرا بابو نائیڈو نے اب الزام عائد کیا ہیکہ ہندوستان کے لوک سبھا انتخابات میں روس نے مداخلت کی ہے۔ روس سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے یہ افواہ پھیلائی گئی ہیکہ ہندوستان میں ہورہے انتخابات میں روس کا رول سرگرمی سے جاری ہے۔ امریکہ کے 2016ء صدارتی انتخابات میں بھی روس کے رول کے الزامات کے درمیان ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے کامیابی حاصل کی تھی اور اسی خطوط پر ہندوستان میں بی جے پی کی طرف یہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ نریندر مودی کو دوبارہ وزیراعظم بنانے کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ اس کیلئے روس کو بھاری رقم ادا کرکے انتخابات میں کامیابی کا رخ بی جے پی کی طرف کرنے کیلئے ہیاکنگ سسٹم سے کام لیا جارہا ہے۔ اس الزام میں کہاں تک سچائی ہے اس کا پتہ چلانا ضروری ہے۔ دنیا بھر میں ہونے والے انتخابات میں صرف 18 ممالک ایسے ہیں جہاں ای وی ایمس کا استعمال ہوتا ہے۔ ان مشینوں کو ہیاک کرلینا آسان سمجھا جارہا ہے۔ چندرا بابو نائیڈو کے اس الزام کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کروڑہا روپئے کے عوض انتخابات میں عوامی رائے کا استحصال یا سبوتاج کیا جاتا ہے تو یہ جمہوریت پر کاری ضرب ہے۔ انتخابات کے بعد وی وی پی اے ٹی کی جانچ کرانے کیلئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا گیا ہے تو اس پر توجہ دی جائے۔ انہوں نے مرکز کی موجودہ نریندر مودی حکومت کو مستقبل میں ملک کیلئے سب سے خطرناک قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی بتائی گئی ہیکہ ملک کے گذشتہ پانچ سال کے دوران معیشت بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ میڈیا پر بھی حکومت کا کنٹرول ہے۔ اگر کوئی بھی اپوزیشن لیڈر مودی حکومت کی خرابیوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اس کے خلاف انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کی جانب سے کیس درج کیا جاتا ہے اور سی بی آئی کی تحقیقات شروع کردی جاتی ہے۔ مودی حکومت کے اندر عوام کو خوف کے ماحول سے گذرنا پڑرہا ہے تو یہ ملک کی بقاء، استحکام کیلئے خطرہ ہے۔ روس کی مدد سے مودی حکومت یہ انتخابات جیتنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کئے جارہے ہیں تو ان الزامات کی تحقیقات ہونی چاہئے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس پر یقین کرلینے میں کسی کو کوئی تعمل نہیں ہوگا کیونکہ ہندوستان کی موجودہ سیاسی طاقت اپنی بقاء کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ جاریہ انتخابات کے دوران ہی معیشت اور مہنگائی جیسے مسائل کو اٹھانے کے بجائے دیگر موضوعات کو انتخابی مہم کا حصہ بناتے ہوئے یہ حکومت عوام کی بڑی تعداد کو گمراہ کررہی ہے۔ اگر فی الواقعی یہ انتخابات بیرونی مداخلت کا شکار بنادیئے جارہے ہیں اور روس کی مدد سے انتخابی نتائج کا رخ حکمراں پارٹی اپنی طرف کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ ملک کیلئے واقعی تباہ کن ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہیک کرنے کا الزام تشویشناک ہے۔ اس مسئلہ کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو ہندوستانی جمہوریت کی پامالی کی بدترین کوشش سمجھی جائے گی۔