ٹی آر ایس کی شاندار کامیابی

ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخاب میں حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کے پی دیاکر کی بھاری اکثریت سے کامیابی کو حکمراں پارٹی پر عوام کے اطمینان و اعتماد کا مظہر قرار دیا جارہا ہے۔ دیاکر نے ووٹ حاصل کرنے کی دوڑ میں پارٹی سربراہ اور چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ورنگل میں دیاکر کو تقریباً 4.6 لاکھ ووٹوں سے کامیابی ملی جبکہ چیف منسٹر کے سی آر نے گزشتہ سال انتخابات کے دوران 3,97,029 ووٹ لئے تھے۔ ورنگل کے رائے دہندوں نے تلنگانہ کے قیام کے بعد سے ٹی آر ایس حکومت کی کارکردگی پر اپنی مرضی اور خوشی کی مہر ثبت کردی ہے تو حکمراں پارٹی کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے کہ وہ اپنے رائے دہندوں کی اس طرح کی خوشی کا پاس و لحاظ رکھیں۔

ریاست کے مختلف اضلاع میں برقی اور پانی کا مسئلہ برقرار خاص کر ورنگل میں مقامی سطح پر جن مسائل کی یکسوئی کی ضرورت ہے۔ اس پر منتخب لیڈر کی توجہ لازمی ہے۔ اصل اپوزیشن کانگریس نے اپنی بدترین شکست کی توقع نہیں کی تھی لیکن سرسلہ راجیا کی گرفتاری کے بعد کانگریس کی ساکھ مزید خراب ہوگئی اور لمحہ آخر میں کانگریس امیدوار کی تبدیلی نے بھی ٹی آر ایس کا موقف مضبوط ہوگیا تھا۔ سب سے بُرا حشر بی جے پی کا ہوا ہے جس نے تلگو دیشم سے اتحاد کرکے بھی اپنی قومی شناخت اور اپنے قومی لیڈروں کے جادو کے باوجود ووٹ حاصل نہیں کرسکی۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے اس کامیابی پر عوام سے اظہار تشکر کیا اور اپنی حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں کو عوامی ضروریات اور پسندیدگی کے مطابق بنانے کا عزم بھی ظاہر کیا ہے۔ ضمنی انتخاب میں کامیابی کے بعد حکمراں پارٹی اور اس کے قائدین کے حوصلہ بلند ہونا یقینی ہیں۔ اس سے نہ صرف عوام کے اندر تلنگانہ جذبات کو قوی بنانے میں مدد ملی ہے بلکہ ٹی آر ایس کے تعلق سے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اب یہ پارٹی تلنگانہ میں ایک مضبوط مقام بناچکی ہے۔ اصل اپوزیشن کانگریس نے اپنی سابق ناکامیوں اور خرابیوں سے ہونے والے تجربات سے سبق نہیں سیکھا۔ اس کے روایتی ووٹ بینک بھی اس کی جھولی سے نکل کر دوسری جگہ حاصل کررہے ہیں۔

کانگریس کے ریاستی قائدین نے پارٹی کے کمزور موقف کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی۔ ورنگل ضمنی انتخاب کے موقع پر جب اس کے نامزد امیدوار سرسلہ راجیا کو ان کی بہو کی خودکشی یا حادثہ میں موت کے بعد اس علاقہ میں اسے متبادل لیڈر نہیں مل سکا جو ٹی آر ایس کے امیدوار پی دیاکر کا مقابلہ کرسکے۔ اگرچیکہ سروے ستیہ نارائنا سابق مرکزی وزیر رہ چکے ہیں اور وہ شہر کی ملکاجگری لوک سبھا حلقہ سے نمائندگی کرچکے ہیں لیکن 2014ء عام انتخابات میں ناکامی کے بعد انہیں ورنگل بلایا گیا تھا۔ عجلت میں کوئی موزوں امیدوار نہ ملنا کانگریس جیسی قومی پارٹی کے لئے لمحہ فکر ہے۔ اس لئے ٹی آر ایس کے سامنے اب ایسی کوئی طاقتور پارٹی نہیں ہے جو اس کے لئے خطرہ بن سکے۔ حکمراں پارٹی کی اس شاندار کامیابی پر جشن منانے والے ٹی آر ایس ورکرس کو اپنے پارٹی سربراہ کے ہاتھ مزید مضبوط کرنے کا حوصلہ ملا ہے۔ ٹی آر ایس ورکرس کے مقابلے دیگر پارٹیوں کے ورکرس نے اگر پوری دیانت داری سے محنت کی ہوگی تو نتائج کا رُخ اس طرح نہیں ہوتا۔ کانگریس پارٹی کے لئے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس کے ہر لیڈر کی اپنی ناراضگی ہے۔ داخلی طور پر بے انصافیوں کا غصہ رکھنے والے یہ قائدین صدر پردیش کانگریس کی کارکردگی سے بیزار نظر آرہے ہیں۔ وعدے بھول جانے والی پارٹیوں کا حشر کیا ہوتا ہے، آج اپوزیشن کی سیاسی حالت کو دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح اپنی کامیابی کے جوش سے سرشار حکمراں پارٹی کو بھی اس کامیابی اور اپوزیشن میں ناکامی کے ذریعہ یہ احساس ہونا چاہئے کہ اسے اپنے وعدے نہیں بھولنے چاہئیں۔ ٹی آر ایس کے وعدوں میں سے ایک وعدہ مسلمانوں کو 12% تحفظات بھی ہے۔ اگر وہ وعدہ بھول جانے والی سیاست کو اختیار کرے گی تو جیسا کہ اس کی اپوزیشن پارٹیوں نے اپنے دور میں کیا تھا تو انتخابات کے وقت عوام کا فیصلہ وہی ہوگا جو آج ٹی آر ایس کے مقابل پارٹیوں کا ہوا ہے۔ اس نکتہ کو ملحوظ رکھ کر اگر ٹی آر ایس حکمرانی کے فرائض اور اپنے وعدوں کو پورا کرے گی تو پارٹی کا مستقبل تابناک ہونا یقینی سمجھا جائے گا۔