ٹرمپ کے سفارت خانہ کی اسرائیل میں منتقلی‘ امن مذاکرات کو تبا ہ کردیں گی۔ فلسطین

اسرائیل کی درالحکومت کے طور پر یروشلم کو تسلیم کرانے کی کوششوں کے بعد بین الاقوامی سطح پر امریکی صدر کو شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔فسلطین نے صدر ٹرمپ کے منصوبوں کی خبروں جس میں یروشلم کو اسرائیلی کی درالحکومت اعلان کیاگیا ہے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مشرقی وسطی میں امن مذاکرات پر یہ فیصلہ کار ضرب ثابت ہوگا ۔وزیر اعظم رامی حمداللہ نے کہاکہ متنازع شہر میں اسرائیل کے امریکی سفارت خانہ کی منتقلی جس کے متعلق کہاجارہا ہے کہ پچھلے چہارشنبہ کے روز اعلان کیاگیا ہے اور یہ اقدام دوریاستی حل کی امیدوں کو’’ تباہ کردے گا‘‘۔

JERUSALEM, ISRAEL – MAY 23: (ISRAEL OUT) In this handout photo provided by the Israel Government Press Office (GPO),US President Donald Trump visit to Yad Vashem Holocaust museum in Jerusalem, Israel, accompanied by Prime Minister Benjamin Netanyahu on May 23, 2017 in Jerusalem, Israel. Trump arrived for a 28-hour visit to Israel and the Palestinian Authority areas on his first foreign trip since taking office in January. (Photo by Amos Ben Gershom/GPO via Getty Images)

فسلطینی سیاست داں حنان اشروی نے کہاکہ اس خبر کے تناظر میں فلسطین اور اسرائیل کو علیحدہ مملکتیں قائم کرنے اور تسلیم کرانے کے ضمن میں جاری کوششوں کے درمیان امریکہ کی دلالی کے لئے یہاں پر’’ کوئی گنجائش‘‘ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ امن کی بات چیت اب ختم‘‘ ہوگئی ہے۔انہوں نے ذاتی طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے ۔ ہم سے بات کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی ہے‘‘۔

ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے بعد بھی فلسطینی یروشلم میں مقیم ہیں ‘ یہ اعلان غیرمتوقع نہیں ہے۔ اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسٹ یروشلم میں سرگرم سماجی جہدکار جواد صیام نے کہاکہ ’’ یہاں تک اسرائیل سے امن بات چیت کی چھوٹی امید جو باقی تھی ‘ ٹرمپ نے آکر اس کو بھی ختم کردیا‘‘۔فلسطین اور اسرائیل دونوں کا دعوی ہے کہ یروشلم ان کی درالحکومت ہے اور امن معاہدے میں بھی اس بات کو قطعیت دی گئی تھی۔

A picture taken on December 4, 2017 shows a general view of the skyline of the old city of Jerusalem, with the Dome of the Rock (L) in the Aqsa Compund.
Palestinian leaders were seeking to rally diplomatic support to persuade US President Donald Trump not to recognise Jerusalem as Israel’s capital after suggestions that he planned to do so.
East Jerusalem was under Jordanian control from Israel’s creation in 1948 until Israeli forces captured it during the 1967 Six-Day War.
Israel later annexed it in a move not recognised by the international community. / AFP PHOTO / AHMAD GHARABLI (Photo credit should read AHMAD GHARABLI/AFP/Getty Images)

اسرائیل کا1948سے یروشلم پر قبضہ ہے مگر 1967کی جنگ کے بعد مغربی کنارہ جویروشلم کے مشرق میں ہے پر بین الاقوامی سرحد حد بندی کے حوالے سے قبضہ کرنے کاشروع کردیا جس کے متعلق اس کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری کابھی مرتکب قراردیاگیا۔

ALTERNATIVE CROP VERSION – Pope Francis (R) meets with US President Donald Trump during a private audience at the Vatican on May 24, 2017. US President Donald Trump met Pope Francis at the Vatican today in a keenly-anticipated first face-to-face encounter between two world leaders who have clashed repeatedly on several issues. / AFP PHOTO / POOL / Alessandra Tarantino (Photo credit should read ALESSANDRA TARANTINO/AFP/Getty Images)

قطعی معاہدے میں فلسطین نے شہر پر اپنا قبضہ حاصل کرلیا اور اسرائیل انتظامیہ کو زمینی حقائق کو تباہ کرنے کرتے ہوئے عرب آبادی کے لئے مشکلات کھڑا کرنے کا ملزم ٹھرایا۔مذہبی عقائد کی بنیاد پر یروشلم کے متعلق یہودی عقائد ہیں کہ ان کے کنگ ڈیو ٹمپل ماونڈ کے اطراف اکناف قدیم دور میں شہر بسایاتھا۔ کئی اسرائیلی اور موجودہ حکومت اس کو مشترکہ درالحکومت مانتی ہے۔

Palestinian Muslim worshippers pray outside Lions’ Gate, a main entrance to the Al-Aqsa mosque compound in Jerusalem’s Old City, on July 22, 2017, in protest against new Israeli security measures implemented at the holy site following an attack that killed two Israeli policemen the previous week.
Stabbings and clashes that left six people dead raised fears of further Israeli-Palestinian violence as tensions mount over new security measures at the highly sensitive Jerusalem holy site. / AFP PHOTO / AHMAD GHARABLI (Photo credit should read AHMAD GHARABLI/AFP/Getty Images)

ایسٹ یروشلم کو فلسطینی مانتے ہیں ہ تیسرا مقدس مقام قبل اول ہے ‘ اسی کے علاوہ قدیم عیسائی گرجا گھر اور300,000فلسطینی جو40فیصد یروشلم آبادی پر مشتمل ہیں۔اعلان کے مطابق کہاجارہا ہے کہ یہ فیصلہ ’’ تاریخی او رموجودہ‘‘ حقائق کو طاق پر رکھ کر سیاسی مفادات کے پیش نظر لیاگیا ہے۔

اسرائیل سفارت خانہ کی منتقلی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے فیس بک کے ذریعہ کہاکہ ہر روز ہماری تاریخ شناخت کے لئے منفرد نشانیاں سامنے آرہے ہیں‘ مگر یہ خاص ہے‘‘۔بین الاقوامی قائدین اس کی مذمت کررہے ہیں اور اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد باضابطہ فیصلے کو ناقابل قبول قراردیا ہے۔پوپ فرانسیس نے کہاکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اس مقام کے لئے جو ں کا توں موقف برقرار رکھنا چاہئےوہیں پر وزیر اعظم تریسیا نے کہاکہ ہونا تو چاہئے تھا کہ یروشلم اسرائیل اور مستقبل کی فلسطین ریاست کا مشترکہ درالحکومت رہنا چاہئے۔

یروشلم کے ایک وکیل ڈانیال سیڈمین نے اسکائی نیوز سے کہاکہ وہ سفارت خانہ کی منتقلی امن مذاکرات کے ’’موت کا صداقت نامہ ‘‘ ہوگا اور انہوں نے ’’ کچھ بھی تبدیل نہ کئے جانے‘‘ کی پیش کش کی۔یروشلم اب کبھی متحد نہیں ہوسکتا۔ فلسطینیوں پر دباؤ کے قبضے میں جینا پر مجبور کیاجارہا ہے‘‘۔ٹرمپ کے اس فیصلے پر عرب ورلڈ کئے گوشوں سے مذمت کی گئی۔ ترکی کے وزیر خارجہ میلوٹ کوسوگولو نے کہاکہ ’’ سارے دنیا اس کے خلاف ہے‘‘اور کہاکہ یہ’’ فاش غلطی ہے‘‘ اس سے ’’ کشیدگی اور عدم استحکام ‘‘ میں اضافہ ہوگا۔