ٹرمپ کی ایمیگریشین پالیسی

امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے تقریباً دنیا کو مضطرب کر رکھا ہے ۔ ٹرمپ کی نئی قومی سلامتی حکمت عملی ہو یا ایمیگریشن پالیسی میں دنیا کے کئی ملکوں کے لیے مضمرات بھی واضح نظر آنے لگے ہیں ۔ وہ تمام مسائل اور خطرات اب مزید واضح انداز میں ابھر رہے ہیں جن کا اندیشہ گذشتہ سال ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ظاہر کیا گیا تھا ۔ امریکی انتخابات اور اقتدار کی سیاست میں نئی الجھن کے ساتھ کامیاب ہونے والے ری پبلکن پارٹی کے ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی امریکی صدارتی سفر کے ایک سال کے دوران کئی ایک پالیسیاں وضع کی اور ان میں سے بعض پالیسیوں کو امریکی عدالتوں اور سینٹ میں چیلنج بھی کیا گیا ۔ تاہم صدر کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ نے چند پالیسیوں اور فیصلوں کو واپس لینے کا بھی اشارہ دیا اور بعد ازاں نرم موقف اختیار کرلیا ۔ انہوں نے 11 ممالک کے پناہ گزینوں پر پابندی میں نرمی بھی لائی ۔ ان میں شمالی کوریا کے علاوہ 10 مسلم اکثریتی مسلم ممالک شامل ہیں ۔ امریکہ کی سلامتی اور امریکی شہریوں کے تحفظ کے لیے صدرکی حیثیت سے ٹرمپ کے اقدامات پر خود امریکی قانون سازوں نے تنقید کی ہے ۔ اب انہوں نے اپنے پہلے اسٹیٹ آف دی یونین اڈریس میں ایمیگریشن مسئلہ کو چھڑا ہے ۔ منگل کی شب اپنے خطاب میں ’ نیا امریکی لمحہ ‘ کے عنوان سے قانون سازوں کو چیلنج کیا کہ وہ خطرناک طریقہ سے بنائے گئے ایمیگریشن سسٹم کو ختم کر کے ایک لچکدار ایمیگریشن نظام تیار کریں ۔ ٹرمپ نے رسمی طور پر اپنے نظم و نسق کا چار ستون والا منصوبہ امریکی کانگریس کے سامنے رکھا پہلا ستون ان کے انتخابی وعدہ کا حصہ ہے ، جس میں انہوں نے ایمیگریشن اصولوں کو سخت بنانے کا وعدہ کیا تھا ۔ امریکی شہرت حاصل کرنے کے خواہاں 1.8 ملین افراد کو جو غیر دستاویزی طور پر امریکہ میں مقیم ہیں کے لیے شدید جھٹکہ ہوگا ۔ اگر ٹرمپ کی یہ پالیسی امریکی قانون دانوں کی جانب سے منظور ہوتی ہے تو پھر اس مسئلہ پر شدید مخالفانہ مہم شروع ہوگی ۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے نظریہ کے مطابق امریکی خواب کو پورا کریں ۔ وہ اپنی حریف جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اپنی پالیسیوں کو مل جل کر منظور کرانا چاہتے ہیں مگر ایسا ہوسکے گا یہ کہنا مشکل ہے ۔ امریکہ کو عظیم تر ملک اور محفوظ خطہ بنانے کے عزم کے ساتھ ٹرمپ نے دیگر اقوام کی سرزمین کو غیر محفوظ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔ امریکی معیشت کے بارے میں ساری دنیا کا ایقان ہے کہ یہ ملک اس شعبہ میں سب سے زیادہ طاقتور ہے ۔ ٹرمپ کی آمد سے پہلے بھی امریکہ ایک معاشی طاقتور ملک تھا آگے بھی رہے گا لیکن ٹرمپ نے اپنی مقبولیت کو گہن لگادیا ہے اسی لیے ان کا عوام کے اندر پسندیدگی کا درجہ گھٹ رہا ہے ۔ امریکہ کا ہر منتخب صدر اپنے ملک اور عوام کے لیے ایک دور اندیشانہ پالیسیاں لے کر آتا ہے ۔ ایک سال قبل بھی ٹرمپ نے اپنی تقریر میں وائیٹ ہاوز نظم و نسق کو ایک محفوظ طاقتور اور پر وقار امریکہ تعمیر کرنے کی ہدایت کے ساتھ حکمرانی کے فرائض کا آغاز کیا تھا ۔ لیکن وقت گذرنے کے ساتھ خود امریکی سیاستدانوں نے ٹرمپ کی پالیسیوں کو انتشار پسندانہ قرار دے کر مسترد کردیا ۔ امریکی اسٹیٹ میسا چوسٹس کے کانگریس رکن جوزف کینڈی سوم نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تقریر پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ جب سے ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا ہے امریکی عوام پریشانی ، غم و غصہ اور خوف کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں ۔ صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبہ کے چار ستون میں سے دوسرا ستون سرحدوں کو مضبوط اور محفوظ بنانے کے لیے پیش کیا ہے جب کہ تیسرا ستون امریکہ کے گرین کارڈ لاٹری سسٹم کو تبدیل کر کے صرف امریکہ کو مطلوب قابل اور ماہر پروفیشنلس کو حاصل کرنے کی پالیسی وضع کرنا چاہی ہے ۔ ان کے منصوبہ کا چوتھا ستون بھی ایمیگریشن سے متعلق ہے جو خونی رشتہ کے حامل شہریوں کے سلسلہ وار امریکی شہریت کے حق سے عوام کو محروم کردے گا ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ اپنی پالیسیوں سے امریکہ کے اطراف جمع ہونے والے خطرات سے بے خبر ہورہے ہیں ۔ اس کا احساس امریکی عوام کی بیشتر آبادی کو ہوچکا ہے ۔ افغانستان کے بشمول مسلم دنیا کے لیے ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان ملکوں کو بدامنی کی جانب ڈھکیل دیا ہے اور پہلے سے ہی خطرات کا شکار ممالک مزید تباہ کن صورتحال سے دوچار ہیں ۔ حال ہی میں افغانستان میں دھماکہ اشیاء سے بھری ایمبولنس سے تباہی پھیلائی گئی ۔ ایسے واقعات پر اگر غور و فکر کا سنجیدہ مظاہرہ نہیں کیا گیا تو پھر ٹرمپ کو اپنی پالیسیوں سے ہونے والے نقصانات کا احساس ہونے تک بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔ بہر حال صدر ٹرمپ کے ایمیگریشن اصلاحات پر ملا جلا ردعمل بھی سامنے آیا ہے ۔ اس سے ہندوستانیوں کے لیے امریکہ میں پائی جانے والی موجودہ صورتحال میں بہتری کی توقع ہے ۔ امریکہ میں قانونی طور پر رہنے والے ہندوستانیوں کو اگر آئی ٹی کمپنیوں کی جانب سے گرین کارڈ کی درخواستیں داخل کرنے کی اجازت ملتی ہے تو برسوں سے اپنی باری کا انتظار کرنے والے ہندوستانی ملازمین کو راحت ملے گی ۔