ٹرمپ نظم و نسق کی سختیاں

آشیاں، شاخ گل تر پہ بناتا ہوں مگر
بات تو جب ہے چمن کا کوئی پتا نہ جلے
ٹرمپ نظم و نسق کی سختیاں
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی پالیسیوںا ور منصوبوں کے ذریعہ حلیف ملکوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کردیا ہے خاص کر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے ان کے فیصلہ کو اقوام متحدہ کی جانب سے ویٹو کرنے کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ شدید ناراض ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنے حلیف ملکوں کو خاص کر ان ممالک جن پر امریکہ مہربان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، ان پر عتاب نازل کرنے کے ارادوں سے سختیاں برت رہے ہیں۔ ٹرمپ نظم و نسق کے تعلق سے دنیا کے بیشتر ممالک کے سربراہوں نے جو رائے قائم کی ہے، وہ امریکہ کی برسوں پرانی پالیسیوں کو ٹرمپ کے ہاتھوں تباہی سے تعبیر کیا ہے۔ اس وقت ٹرمپ کا نشانہ وہ ممالک ہیں جن کو امداد دینے کے نام پر ان سے اپنے مقصد کے مطابق کام لینا ہے۔ ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان نے حالیہ برسوں میں امریکہ کاخاص ساتھ دیا ہے۔ خاص کر القاعدہ کا صفایا کرنے میں اس کا تعاون اور اسامہ بن لادن کی موت کے لئے سبب بننے والے معلومات نے امریکہ کو اس کے اصل چیلنج بن کر رہنے والے اسامہ تک پہنچنے میںکامیابی ملی تھی۔ اس تعاون کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پاکستان نے حال ہی میں طالبان سے وابستہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی تھی۔ پاکستانی فورس نے کناڈا کی امریکی نژاد فیملی کو حقانی نیٹ ورک کے چنگل سے آزاد کروالیا تھا۔ دہشت گردوں نے اس خاندان کو یرغمال بنا رکھا تھا۔ پاکستانی پولیس نے ایک اغواء کار کو بھی گرفتار کیا تھا جو پاکستان کی بڑی کامیابی تھی اور امریکہ اس دہشت گرد کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے پر زور دے رہا تھا۔ یہ دہشت گرد طالبان سے وابستہ حقانی نیٹ ورک کا ایک رکن ہے۔ امریکہ چاہتا ہیکہ پاکستان اس دہشت گرد کو اس کے حوالے کردے تاکہ وہ دیگر امریکی یرغمالیوں کے بارے میں اس سے معلومات حاصل کرسکے اور سچائی اگلا سکے مگر پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے اس رکن کو امریکہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو وہ چراغ پا ہوگیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ کشیدگی میں ایک اور اضافہ ہے۔ پاکستان اپنے موقف کے ذریعہ امریکہ کو ناراض کررہا ہے اب ٹرمپ نظم و نسق نے پاکستان کو دی جانے والی امداد کی رقم روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ کی جانب سے پاکستان کو 255 ملین ڈالر کی امداد دی جاتی ہے۔ اب یہ امداد روک دی جائے تو پاکستان اور امریکہ کے درمیان تلخیوں میں اضافہ ہوگا اور پاکستان کی سرحد پر امریکہ کی مدد کرنے والے ملک پاکستان کو اس امداد کے نہ ملنے سے جو مسائل پیدا ہوں گے، اس سے خود ٹرمپ نظم و نسق کے منصوبوں کو دھکہ پہنچے گا کیونکہ افغانستان سے متصل پاکستان کی سرحد امریکہ کیلئے نہایت ہی اہمیت کی حامل ہے۔ دہشت گردی کاسامنا کرنے کیلئے امریکہ کو پاکستان کا ساتھ ضروری ہے۔ انسداد دہشت گردی سرگرمیوں میں پاکستان کے تعاون کی وجہ سے ہی افغانستان میں امریکی فوج کو القاعدہ کے خلاف بہتر پیشرفت میں کامیابی ملی تھی۔ بعد کے برسوں میں بھی پاکستان نے امریکہ کی کئی محاذوں پر مدد کی ہے اور اس کے عوض امریکہ نے پاکستان کو منہ مانگی امداد بھی دی ہے۔ اس مرتبہ ٹرمپ نظم و نسق کو غصہ اس بات کا ہیکہ پاکستان اپنے وعدے کے مطابق انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں مدد کرنے سے گریز کررہا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات دیرینہ اور مستحکم رہے ہیں لیکن جب سے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ امریکہ نے نیویارک کے جڑواں ٹاور پر دہشت گرد حملہ یعنی 9/11 کے بعد پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں مدد کرنے کیلئے 2002ء سے اب تک تقریباً 33 بلین کی امداد دی ہے لیکن ٹرمپ نظم و نسق نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے سخت فیصلوں کے بعد پاکستان کو پریشان کردیا ہے۔ اگست میں پاکستان کو 255 ملین ڈالر کی رقم دینی تھی مگر پانچ ماہ سے اس نے یہ رقم روک رکھی ہے۔ پاکستان پر غصہ کا اظہار کرنا ٹرمپ نظم ونسق کیلئے کتنا سودمند ہے یا نقصاندہ ہے یہ تو بعد میں پتہ چلے گا، فی الحال امریکہ ،پاک۔ افغان سرحد پر چوکسی کو اہمیت دے رہا ہے تو اسے پاکستان کے ساتھ امداد کے معاملہ میں سخت گیر نہیں ہونا چاہئے۔ نائب صدر امریکہ مائیک پنس نے کرسمس سے قبل ہی افغانستان کا دورہ کیا تھا اور امریکی فوج کو بتادیا تھا کہ ٹرمپ نظم و نسق نے پاکستان کو اپنی ناراضگی سے واقف کروایا ہے لیکن اصل سوال یہ ہیکہ ٹرمپ نظم و نسق کی پالیسیاں اور پنٹگان کے منصوبے ٹکراؤ کا باعث کیوں بن رہے ہیں کیونکہ پنٹگان کی پاکستان کی فوج سے دیرینہ دوستی و اشتراکیت ہے اور وہ پاکستانی فوج کو اپنے لئے اہم سمجھتا ہے۔
غیرقانونی عمارتوں کا جال اور حادثے
ممبئی کے لوور پریل بستی میں کملا ملس احاطے میں واقع عمارت میں مہیب آتشزدگی اور 14 افراد کے زندہ جل کر ہلاک ہونے کے واقعہ کے بعد ممبئی بلدیہ بریہن ممبئی میونسپل کارپوریشن (بی ایم سی) نے غیرقانونی عمارتوں کو منہدم کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جب کوئی بڑا حادثہ رونما ہوتا ہے تو قانون کی خلاف ورزیوں کے ذریعہ انجام دیئے گئے کام آشکار ہوتے ہیں۔ حادثہ یا المیہ کے بعد ہی متعلقہ عہدیداروں کی آنکھ کھلتی ہے اور وہ انہدامی کارروائیاں یا احتیاطی اقدامات شروع کرتے ہیں۔ ایسے میں قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کا بھی نقصان ہوتاہے تو اس خلاف ورزی سے ہونے والے حادثہ سے معصوم لوگ جان سے چلے جاتے ہیں۔ ممبئی جیسا گنجان کثیر آبادی والا شہر غیرقانونی عمارتوں کا جنگل بنا ہوا ہے۔ یہاں کی عمارتوں اور تعمیرات کیلئے سخت پالیسیاں ہونے کے باوجود غیرقانونی عمل جاری رہتا ہے۔ ممبئی بلدی عہدیداروں نے کملا ملس واقعہ کے بعد پانچ عہدیداروں کو معطل کردیا ہے لیکن اس طرح کی نرم کارروائیوں سے رشوت کا خاتمہ نہیں ہوگا اور نہ ہی غیرقانونی طور پر جاری کاموں میں کمی آئے گی بلکہ بلدی حکام کی ذمہ داری ہیکہ وہ غیرقانونی ڈھانچوں کو نشاندہی کے ذریعہ انہیں منہدم کردیں۔ اس کے علاوہ تنگ اور تاریک گلیوں میں بلد عمارتوں اور حادثہ کی صورت میں عمارت سے افراد کے تخلیہ کیلئے متبادل انتظامات کی کمی کا نوٹ لیا جانا چاہئے۔ ان دنوں پینٹ ہاؤز یا عمارت کی بالائی منزل کو چھوٹی چھوٹی تقاریب، ریسٹورنٹس اور دیگر اجتماعات کے لئے استعمال کرنا عام ہوگیا ہے۔ بلند عمارت کی آخری منزل پر بڑی تعداد میں عوام کا اکھٹا ہونا بھی جان لیوا ہوتا ہے۔ اس طرح کی نازک کیفیت کو بلدی عہدیدار اور پولیس نظرانداز کرتی ہے تو یہ دکھ کی بات ہے کہ کملا ملس کے حادثہ کی طرح حادثے ہوتے رہیں گے۔ عوام اپنی قیمتیں جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ حادثہ کے بعد خاطی عہدیداروں کو معطل کرنے کا نرم عمل بھی حادثات اور غیرقانونی تعمیرات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ لہٰذا متعلقہ محکموںکی ذمہ داری ہیکہ وہ اصول و ضوابط پر سختی سے عمل کریں۔ کملا ملس کے متوفیوں کی زیادہ سے زیادہ امداد کی جانی چاہئے۔