ٹاپ سیاسی جماعتیں یوپی میں ’’ انتظارکرو اور دیکھو‘‘ کے حربے کا استعمال کررہی ہے۔

اترپردیش میں سیٹوں کی تقسیم کے متعلق اکھیلیش یادو او رمایاوتی کے درمیان اتحاد کے بعد 38-38سیٹوں پر مقابلے کے اعلان کو ایک ماہ کا عرصہ گذر گیا ہے مگر لیڈر سیٹوں کے اعلان میں تاخیر کررہے ہیں۔

مذکورہ کانگریس جس نے پرینکا گاندھی کے داخلے کے ساتھ کافی جوش میں نظر آرہی ہے اور کی نظراپنی موجودگی کااحساس دلانے کے لئے چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کی طرف نظر لگائے رکھے ہے۔

برہمی کا سامنے کررہی بی جے پی اپنی 68ایم پیز کو تبدیل کرنے کی تیاری کررہی ہے تاکہ بی جے پی کی مخالفت کے خلاف جدوجہد کرسکے اور وزیراعظم نریندر مودی کی ریاست میں زیادہ سے زیادہ مہم چلانے کے حالات بنائے جارہے ہیں۔

یوپی میں اس انتظار کروں او ردیکھو کے کھیل میں تمام تین کیمپوں جس میں سہ رخی مقابلہ ہے ‘ جو ایک دوسرے کے ووٹ بینک کے لئے ان کی مہم کی تیاری کا جائزہ لے رہے ہیں۔ای ٹی نے تقریبا ایک ہفتہ لکھنو میں گذرا اور مختلف لیڈرس سے ان کی حکمت عملی پر بات کی ہے۔

ایس پی ‘ بی ایس پی آر ایل ڈی کیمپ مذکورہ غیر رسمی معاہدے میں بہوجن سماج پارٹی 38سیٹوں پر مقابلے کرے گی جبکہ راشٹرایہ لوک دل تین سیٹوں پر مقابلے کرے گی جس میں ایک سیٹ پر بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار آر ایل ڈی کے ٹکٹ پر مقابلہ کریں گے۔جبکہ سماج وادی پارٹی 37پر مقابلہ کرے گی۔

حالانکہ مذکورہ سیٹوں کے متعلق کہاجارہا ہے اس میں زیادہ تر کی شناخت ہوگئی ہے۔ جن کا سرکاری طور پر اعلان ہونا ہے او رکسی قسم کی خرابی ہوگی توبی جے پی استفسار کیاجائے گا۔

اس کانگریس کیمپ کا دعوی ہے کہ پرینکا کے داخلہ بعد ایس پی اوربی ایس پی دوبارہ اپنی حکمت عملی کا جائزہ لی رہے ہیں۔تاہم الائنس کے لیڈرس نے اس بات سے انکار کیا کہ کوئی تاخیر ہورہی ہے اور کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ اگرابھی امیدواروں اور ان کی سیٹوں کے ناموں کا اعلان کیاگیاتو یہ بہت عجلت ہوجائے گی ۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس اوربی جے پی نے اب تک اپنے امیدواروں کا کیوں اعلان نہیں کیا۔

سماج وادی پارٹی کے سینئر لیڈر راجندر چودھری نے کہاکہ ’’الیکشن اپریل میں ہے۔

ہر چیز کااعلان اس ماہ میں ہی ہوگا‘‘۔ کئی سیٹوں کے لئے بی ایس پی نے انچارجوں کا اعلان کیا کہ ‘ جیسے سابق بی ایس پی ایم ایل ایز حاجی یعقوب قریشی میرٹھ میں محمد اقبال بجنور میں ۔

یہ متوقع امیدوار بھی ہیں۔ ایس پی اور بی ایس پی کے درمیان بہتر رشتوں کی عکاسی ایوان اسمبلی کے اندر او ر باہر بی جے پی کے خلاف ان کا متحدہ احتجاجی مظاہرہ ہے۔

بی ایس پی کے اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن لال جی ورما اس وقت اکھیلیش یادو کے ساتھ دیکھے گئے جب انہیں پریاگ راج جانے سے روک دئے جانے کے بعد اکھیلیش یادو نے گورنر رام نائیک سے ملاقات کی تھی۔ مایاوتی نے بھی اکھیلیش کے خلاف کاروائی پر ایک سخت مذمتی بیان جاری کیاتھا۔

مگر بی ایس پی کے بانی ملائم سنگھ یادو کا وزیراعظم نریندر مودی کے پارلیمنٹ اجلاس کے دوران نیک تمناؤں کا اظہار اپوزیشن کے خیمہ میں تشویش کی لہر کا سبب بن رہا ہے۔مایاوتی نے اس بیان پر خاموشی اختیار کی تو اکھیلیش یادو نے بیان دیا کہ ملک ایک نیا وزیراعظم دیکھے گا۔۔

کانگریس کا خیمہ جہاں تک لکھنو میں پرینکا گاندھی کے ورکرس سے خطاب کا معاملہ ہے تو انہو ں نے کہاکہ کانگریس کارکنوں سے رائے مانگی کہ کیا کانگریس کو الائنس کے ساتھ جانا چاہئے یا نہیں۔ جب ورکرس نے کہاکہ’ الائنس نہیں ہونا چاہئے‘تو پرینکا گاندھی نے کہاکہ الائنس نہیں ہوگا۔

کانگریس اپنے منصوبہ بی پر کام کررہا ہے جس میں اس کی نظر یوپی کی چھوٹی پارٹیاں پر ہیں ۔ پرینکا نے مہان پارٹی سے اتحادکا ایک اعلان کیا جس کے کشواہا لیڈر کیشو دیو موریا نے پرینکا کی موجودگی میں ایس پی او ربی ایس پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

کانگریس نے یہ بھی کہاہے کہ وہ پسماندہ پارٹیاں اوم پرکاش راج بہار او رشیو پال یادو سے بھی الائنس کو قبول کرسکتی ہیں اگر وہ مناسب سیٹوں پر رضامندی ظاہر کرتے ہیں۔ مودی پر ملائم کے بیان سے کانگریس کی ان امیدوں میں اضافہ ہوگیا ہے جس کے تحت وہ مسلم ووٹ حاصل کرنے کی فراغ میں ہے۔

سال2009میں کانگریس نے یوپی میں21سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی ‘ یہ اسوقت ہوا تھا جب ملائم سنگھ یادو نے کلیان سنگھ جیسی طاقتوں سے ہاتھ ملایاتھا ۔

مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے مایاوتی نے پچھلے ہفتہ مدھیہ پردیش میں گاؤذبیحہ کے ایک معاملے پر این ایس اے قانون نافذ کرنے پر کانگریس کو اپنی شدید تنقید کا نشانہ بنایاتھا

کانگریس کے ساتھ شیوپال یادو کا الائنس ایس پی او ربی ایس کو مزید مایوس کرسکتاہے ‘ کیونکہ ایس پی سے نکالے گئے لیڈر نے یوپی گیسٹ ہاوز معاملے میں مایاوتی کے ساتھ بدسلوکی کی تھی او راکھیلیش یادو کے پاس اپنے چچا کے لئے اب کوئی ہمدردی نہیں ہے۔

اس معاملے کے بعد کانگریس کو امیتھی او ررائے بریلی سے کسی قسم کی ان دوسیٹوں پر’’تعاون‘‘ کی امید نہیں ہے ‘ جہاں سے راہول گاندھی اورسونیاگاندھی الیکشن لڑتے ہیں اور ایس پی‘ بی ایس پی ‘ آر ایل ڈی اتحاد نے مذکورہ دوسیٹوں پر مقابلہ نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔

کانگریس کے اندر جوش وجذبہ کافی بڑھاہوا ہے ۔وہیں بی جے پی کیمپ میں مخالف حکومت رحجان کی وجہہ سے اس کے کئی ایم پیز کو ٹکٹ دینے سے انکار کیاجارہا ہے۔ بی جے پی لیڈرس کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن پرینکا کاچہرہ نہیں بلکہ بی جے پی اور ایس پی ‘ بی ایس پی آرایل ڈی اتحاد کے درمیان ہوگا۔

یہ10فیصد تحفظات جو اعلی ذات والوں کو دیاگیا ہے وہ اس قسم کے ووٹرس کو متاثرکرے گا جو ایس پی او رکانگریس کے درمیان منقسم ہونگے اور اس کا فائدہ اس مرتبہ بی جے پی کو ملے گا جیسا 2017کے اسمبلی الیکشن میں ہوا تھا۔

بی جے پی نے لکھنو میں ملائم سنگھ یادو کے شکریہ پرمشتمل ہورڈنگس لگائے ہیں جنھوں نے مودی کو دوبارہ وزیراعظم بننے کے لئے نیک تمناؤ ں کا اظہار کیاہے۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ یوپی میں اب مسلم ووٹ بٹ جائیں گے ۔

وہیں ایس پی او ربی ایس پی نے مہم کی اب تک شروعات کی نہیں جبکہ بی جے پی نے مہم شروع کردی اور مودی نے اب تک سات مرتبہ یوپی کا دورہ کیاہے۔ بی جے پی آوارہ میویشوں کے مسلئے پر کسانوں کو جوابدہی پر پی ایم کسان ندھی کی طرف نظر لگائے ہوئے ہیں ‘ یہ نقدی کی منتقلی اسکیم ہے جس کی شروعات مودی نے گورکھپور سے کی تھی