ٹاملناڈو کی سیاسی تبدیلیاں

کیا بات کوئی اس بت عیار کی سمجھے
بولے ہے جو مجھ سے تو اشارات کہیں اور
ٹاملناڈو کی سیاسی تبدیلیاں
سیاسی فائدہ جہاں ہورہا ہے بی جے پی وہاں پہنچ رہی ہے۔ جنوبی ہند کی ریاست ٹاملناڈو میں گذشتہ 6 ماہ سے جاری اقتدار کی رسہ کشی کا اختتام بھی بی جے پی کی سرپرستی میں ہوتا دکھائی دیا ہے۔ انا ڈی ایم کے حریف گروپس نے کے پلانا سوامی کی زیرقیادت حکومت کا حصہ بننے کیلئے اس میں ضم ہونے کا فیصلہ کیا اور اوپنیراسلوم ٹاملناڈو کے 3 مرتبہ چیف منسٹر رہنے کے بعد اب ڈپٹی چیف منسٹر بن گئے ہیں۔ جیہ للیتا جب جیل میں تھیں ان کی قیادت کو پنیراسلوم نے ہی دو مرتبہ سنبھالا تھا اور گذشتہ ڈسمبر میں جیہ للیتا کی موت کے بعد بھی تیسری مرتبہ پنیراسلوم ہی چیف منسٹر بن گئے تھے اب ٹاملناڈو کی سیاست سے ہٹ کر بی جے پی کے اشاروں یا وزیراعظم نریندر مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ کی سرپرستی میں اتحاد والی حکومت بن چکی ہے۔ اگر انا ڈی ایم کے بی جے پی میں شامل ہوجائے تو اس زعفرانی پارٹی کو جنوبی ریاست میں حکمراں گروپ کا حصہ بننے کا موقع ملے گا۔ انا ڈی ایم کے نے این ڈی اے میں شمولیت اختیار کرکے مرکز سے ٹاملناڈو کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اب خود بی جے پی ہی ٹاملناڈو کی سیاسی صفوں میں گھس چکی ہے تو پھر جنوبی ہند میں زعفرانی طاقتوں کو مضبوط ہونے کا موقع ملے گا۔ ٹاملناڈو کی اس بدلتی سیاسی تصویر کے ابھر کر سامنے آتے ہی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹوئیٹر پر اپنا بیان ٹوئیٹ کرنے میں تاخیر نہیں کی اور انہوں نے ٹاملناڈو میں سیاسی تبدیلیوں پر مبارکباد بھی دیدی۔ یہ مبارکبادی کا پیام ٹاملناڈو میں بی جے پی کے عزائم کا ایک اشارہ ہے۔ مرکز نے اس اتحادی حکومت کو ہر ممکنہ مدد کرنے کا بھی تیقن دیا ہے۔ بہار کے حالیہ تجربہ نے مرکز کی بی جے پی قیادت کو ٹاملناڈو کی سیاسی صورتحال سے نمٹنے کا موقع دیا ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے عظیم تر اتحاد کو توڑ کر بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا تو یہ ایک بدترین موقع پرستی کی سیاست تھی۔ عین اسی طرح ٹاملناڈو میں بھی ہوا ہے۔ گویا بی جے پی ہر اس ریاست میں اپنی سیاسی مداخلت کا موقع تلاش کررہی ہے اور اس کیلئے پہلے اسباب و وجوہات پیدا کررہی ہے۔ یہ ایک بدترین سیاسی موقع پرستی ہے جو ہندوستانی سیاست کے اقدار کو پامال کردے گی۔ آنے والے انتخابات میں ٹاملناڈو کی سیاست میں بی جے پی اور انا ڈی ایم کے کا اتحاد وہاں کی اپوزیشن ڈی ایم کے اور بائیں بازو پارٹیوں کے دوبارہ اقتدار پر آنے کے واقعات کو موہوم کردے گا۔ ٹاملناڈو میں ہوئی تبدیلی نے 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں وزیراعظم مودی کی واپسی کے امکانات کو قوی کردیا ہے۔ اب ٹاملناڈو اسمبلی میں اپوزیشن کی جانب سے فوری طور پر تحریک عدم اعتماد کی نوٹس دینے کا بھی سوال نہیں اٹھے گا کیونکہ ریاست کی سیاست کو مرکز کی بڑی طاقت نے ہائی جیک کرلیا ہے تو فی الحال اپوزیشن کو ایک خاص وقت تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ٹاملناڈو میں ہونے والا یہ اتحاد صرف بی جے پی کی جانب سے مسلط کردہ سیاسی چال کا حصہ ہے جس کو غیرفطری اتحاد کہا جاسکتا ہے۔ کل تک دو حریف گروپس نے ایک دوسرے پر بے حد کیچڑ اچھالا تھا۔ آج انہوں نے گرمجوشی سے نہ سہی دکھی دل سے ہاتھ ملا لیا ہے تو اس کے پیچھے مرکز کی طاقت ہے۔ اپوزیشن ڈی ایم کے کو اس سیاسی اتھل پتھل کے دوران حکمراں اتحاد کے کسی بھی ناراض لیڈر کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اس طرح کی کوشش سے گریز ہی کیا جانا بہتر ہوگا کیونکہ سیاسی تبدیل شدہ حالات کتنے دن تک متوازن رہیں گے یہ کہا نہیں جاسکتا۔ انا ڈی ایم کے قائدین کی اقتدار کی بھوک نے ٹاملناڈو کے عوام کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ اس اتحاد سے عوام کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ایسے نیم دلانہ اتحاد کا کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا۔ حکومت کے استحکام کی بھی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔ البتہ وزیراعظم مودی کا سہارا ہے تو ٹاملناڈو کے اس موقع پرستانہ اتحاد کو کوئی دھکہ نہیں پہنچے گا۔ جہاں تک عوام کی رائے کا سوال ہے یہ تو آئندہ انتخابات میں ہی پتہ چلے گا کیونکہ ٹاملناڈو کے عوام میں بی جے پی کی ایماء پر ہونے والے اس اتحاد کو قبول کریں گے یا مسترد کریں گے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ ٹاملناڈو کی سیاست میں فلمی صنعت کا اہم رول رہا ہے۔ جاریہ سیاسی تبدیلیوں کے درمیان اگر فلمی شخصیتیں جسے کمل ہاسن اور رجنی کانت نے سیاسی قدم اٹھایا تو پھر ٹاملناڈو کی سیاست نیا رخ اختیار کرے گی۔ ہوسکتا ہے کہ کمل ہاسن شیواجی گنیش کے نقش قدم پر چلنے کیلئے تیار ہوجائیں؟۔