ٹاملناڈو میں سیاسی رسہ کشی

اے ضبط ہوشیار! کسی کو خبر نہ ہو
کرنا ہے اس نگاہ کا پھر سامنا مجھے
ٹاملناڈو میں سیاسی رسہ کشی
جنوبی ریاست ٹاملناڈو میں سیاسی رسہ کشی عروج پر ہے ۔ یہاں حالانکہ دو متحارب گروپس کا ایک دوسرے سے اتحاد اورا یک دوسرے میں انضمام ہوگیا ہے لیکن اس کام میں جن قائدین کو نظر انداز کردیا گیا یا جنہیں پارٹی سے خارج کردیا گیا انہوں نے علم بغاوت بلند کردیا ہے اور پارٹی کے 18 ارکان اسمبلی بھی باغی گروپ کا حصہ بن گئے تھے ۔ اب ان ارکان اسمبلی کو اسپیکر نے ایوان کی رکنیت سے نا اہل قرار دیدیا ہے جبکہ یہ ارکان اسمبلی عدالت سے بھی رجوع ہوگئے ہیں۔ اس سارے عمل میں ریاست میں پلانی سوامی حکومت کی جانب سے اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے منصوبہ پر عدالت نے حکم التوا جاری کردیا تھا ۔ اب اس حکم التوا میں توسیع بھی دیدی گئی ہے ۔ یہ صورتحال سابق چیف منسٹر اور برسر اقتدار آل انڈیا انا ڈی ایم کی سربراہ جئے للیتا کے انتقال کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ۔ جب جئے للیتا کا انتقال ہوا تھا اس وقت ان کی موت پر بھی کئی سوال اٹھائے گئے تھے ۔ ریاست میں اقتدار اور کرسی کیلئے جو گروپس اب ایک ہوگئے ہیں اور ایک دوسرے میں ضم ہوگئے ہیں انہوں نے خود بھی ایک دوسرے پر اس تعلق سے الزامات عائد کئے تھے ۔ خاص طور پر سابق چیف منسٹر پنیرا سیلوم کے گروپ نے جئے للیتا کی موت پر اندیشوں کا اظہار کیا تھا اور سوال اٹھائے تھے ۔ پلانی سوامی گروپ کی جانب سے ان اندیشوں کو مسترد کردیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ محض عوام کی توجہ حاصل کرنے کیلئے اس طرح کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ اب یہ دونوں گروپس ایک ہوگئے ہیں اور پنیرا سیلوم کو جئے للیتا کی موت پر سوال اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی ہے ۔ پارٹی میں جو کچھ ماہ قبل تک سب کچھ تھے اب انہیں کو نکال باہر کردیا گیا ہے ۔ جئے للیتا کی انتہائی قریبی وی کے ششی کلا تو کرپشن کے ایک مقدمہ میں جیل میں ہیں جبکہ ان کے بھانجے ٹی ٹی وی دیناکرن کو انہوں نے پارٹی کا ڈپٹی جنرل سکریٹری نامزد کردیا تھا ۔ دونوں گروپس کے انضمام کے بعد خود ششی کلا اور دیناکرن دونوں کو پارٹی سے خارج کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور اس صورتحال پر دیناکرن اور ان کے حامی ارکان اسمبلی ناراض ہیں اور انہوں نے علم بغاوت بلند کردیا ہے ۔ یہ لوگ عدالت سے بھی رجوع ہوچکے ہیں۔
یہ ساری رسہ کشی در اصل کرسی اور اقتدار کیلئے ہے ۔ جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر کوئی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے یا پھر اقتدار میں حصہ داری حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اپنے اس مقصد میں پنیرا سیلوم تو کامیاب ہوچکے ہیں اور انہیں ایسے میں جئے للیتا کی موت پر اب مزید شبہات کا اظہار کرنے کی یا پھر سی بی آئی کے ذریعہ تحقیقات کے مطالبہ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ پلانی سوامی کو ششی کلا نے اپنا وفادار سمجھتے ہوئے چیف منسٹر کی ذمہ داری سونپی تھی ۔ اب پلانی سوامی کو ششی کلا کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ وہ جیل چلی گئی ہیں اور اقتدار کی ساری باگ ڈور پلانی سوامی کے ہاتھ میں آگئی ہے ۔ اس کے برخلاف پارٹی پر کنٹرول ختم ہوجانے پر دیناکرن اور ان کے حامی ارکان اسمبلی پریشان ہوگئے ہیں۔ وہ اسی لئے عدالت کا سہارا لے رہے ہیں جبکہ قانون انحراف کے تحت کارروائی کی بہت ساری مثالیں ہمارے ملک میں موجود ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بیشتر موقعوں پر اس کا استعمال محض برسر اقتدار جماعت یا حکومت کو بچانے اور فائدہ پہونچانے کیلئے ہی کیا گیا ہے ۔ یہ ساری مفاد پرستیاں اور موقع پرستیوں کے مظاہرے اس ریاست میں جو رہے ہیں جہاں شخصیت پرستی کا ہمیشہ غلبہ رہا تھا ۔ اب یہ تاثر ختم ہونے جا رہا ہے اور اس کے پس پردہ بی جے پی کے عزائم ہیں جس نے ان دونوں گروپس کو مزید خلفشار اور انتشار سے بچاتے ہوئے پس پردہ مہم کے ذریعہ ایک کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ بی جے پی کو ان دونوں گروپس کے اتحاد اور پھر اس متحدہ پارٹی کی جانب سے این ڈی اے کی تائید چاہئے تھی ۔
سبھی گوشوں کی جانب سے اپنے اپنے مفادات اور عزائم کی تکمیل کیلئے جو کچھ ہوسکتا تھا وہ کیا گیا ہے اور اب بھی کیا جا رہا ہے ۔ اس سارے معاملہ میں موقع پرستی اور مفاد پرستی کی مثالیں سامنے آئے ہیں اور کسی نے بھی اپنی وفاداریاں اور گروپس کو بدلنے میں کوئی عار محسوس نہ کی اور نہ ہی کسی نے اس میں کوئی تاخیر تک گوارا کی ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں کچھ روایات اور اصول ہیں جن کو کسی بھی قیمت پر ترک نہیں کیا جاتا لیکن یہ اقتدار اور کرسی کے لالچ نے اس تاثر کو بھی غلط ثابت کردیا ہے ۔ یہاں جو موقع پرستی کی مثالیں سامنے آئی ہیں وہ کم از کم ٹاملنالاو کی روایات کی عکاس نہیں ہیں ۔ یہاں جتنے بھی سیاسی گروپس یا حلقے ہیں ہر کسی نے موجودہ صورتحال میں اپنے مفادات ہی کو پورا کرنے پر توجہ دی ہے اور کسی نے بھی جمہوری اصولوں اور سیاسی وابستگیوں اور اخلاق و اقدار کو نبھانے کی کوشش نہیں کی ۔