ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ ہند

دوائیں زہر ہیں، تیمار دار قاتل ہیں
ہمارا اب تو گذارا ہے بس دعاؤں پر
ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ ہند
سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان 19 فبروری سے ہندوستان کا دورہ کریں گے۔ سعودی ولیعہد بن جانے کے بعد ان کا یہ پہلا دورہ ہندوستان ہوگا۔ وہ اس ماہ دیگر ممالک کا بھی دورہ کررہے ہیں خاص کر پاکستان کے دورہ پر وہ پہنچ چکے ہیں۔ اس کے بعد ہندوستان اور انڈونیشیا بھی جائیں گے۔ ہندوستان کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات دیرینہ ہیں لیکن ان کے دورہ پاکستان کو بھی عالمی سطح پر اہمیت دی جارہی ہے کیونکہ پاکستان کے موجودہ حالات اور خطے کی صورتحال نازک ہے۔ ہندوستان میں دہشت گرد حملوں اور سی آر پی ایف جوانوں کی ہلاکتوں کے واقعہ کے بعد سعودی ولیعہد شہزادہ کا دورہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پیدا ہوئی طویل دوری کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان میں صرف مقامی اور سعودی عرب کے بارے میں توجہ دیتے ہیں تو کشمیر مسئلہ پر ان کا موقف واضح نہیں ہوسکے گا۔ شہزادہ کے اس دورہ کے دوران پاکستان میں آئیل ریفائنری کے قیام کے بشمول 8 یادداشت مفاہمت پر دستخط شامل ہے۔ پاکستان کو اقتصادی طور پر بہتر بنانے کیلئے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی بھی توقع کی جارہی ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خاں نے اپنے ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کیلئے جو اقدامات شروع کئے ہیں ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان کا یہ دورہ بھی اسی کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ عمران خاں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کیلئے سب سے اہم بات یہ ہیکہ سعودی عرب کی جانب سے 10 ارب ڈالر کی لاگت سے آئیل ریفائنری کے قیام کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ ولیعہد نے اپنے دورہ ایشیا کے موقع پر سربراہان مملکت سے بات چیت میں اگرچیکہ دہشت گردی کے موضوع پر بات چیت کرنے کا بھی موقع رکھا ہے تو وہ دہشت گردی کے خلاف تعاون اور افغانستان میں قیام امن کے عمل پر زور دیں گے جہاں تک کشمیر میں پاکستان کی تنظیموں کی جانب سے ہونے والے دہشت گرد حملوں کا تعلق ہے اس پر بھی ولیعہد شہزادہ کو اظہار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ افغانستان، پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی سعودی عرب کا خاص احترام کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم ہندوستان نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ خلیجی ممالک کے دوران عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب قدم اٹھائے ہیں۔ جہاں تک پاکستان کی جانب سعودی عرب کے جھکاؤ کا سوال ہے یہ صرف ایک اقتصادی تعلق خاطر ہی ہے۔ پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے روابط بھی دیرینہ ہیں۔ 1970ء کے اوائل میں شاہ فیصل اور پاکستان سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے مل کر اسلام آباد اور ریاض کے درمیان معاشی اور فوجی پارٹنر شپ کیلئے معاہدے کئے تھے اور یہ قریبی تعلقات کئی دہوں سے جاری ہیں لیکن درمیانی وقفہ دونوں ملکوں کے درمیان تلخیوں کا باعث رہا ہے خاص کر 2015ء میں یمن میں ایرانی حمایت والے حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی میں سعودی زیرقیادت اتحاد میں شامل ہونے سے پاکستان کے انکار کے بعد سعودی ۔ پاک تعلقات میں کڑواہٹ کو نوٹ کیا گیا تھا لیکن ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس کڑواہٹ کو دور کرنے اور وزیراعظم پاکستان عمران خاں کی پالیسیوں کی حمایت کرنے کیلئے دورہ کررہے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہیکہ نیوکلیئر طاقت کے حامل پاکستان کیلئے سعودی عرب نے اپنی ناراضگی دور کرلی ہے اور دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کا مرحلہ آ گیا ہے۔ ہندوستان میں ان کی آمد کا انتظار کیا جارہا ہے۔ 19 فبروری کو دورہ ہندوستان کے موقع پر دہشت گردی کے خلاف ولیعہد کا موقف واضح ہونا چاہئے۔ وزیراعظم مودی نے ارجنٹینا میں جی 20 چوٹی کانفرنس کے موقع پر سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی اور اب منگل کو وہ شہزادہ کا نئی دہلی میں خیرمقدم کریں گے۔ یہ دورہ بلاشبہ کئی لحاظ سے اہمیت کا حامل ثابت ہوگا۔
جیش محمد اور چین
اقوام متحدہ نے جیش محمد کے صدر مسعود اظہر کو دہشت گرد گروپس کی فہرست میں نامزد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن چین نے اپنی مداخلت کے ذریعہ اس کوشش کو ناکام بنایا تھا۔ جموں و کشمیر میں اب تک ہونے والے دہشت گرد حملوں میں پلوامہ کا دہشت گرد حملہ سب سے زیادہ خطرناک اور جان لیوا تھا۔ اس واقعہ نے نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ عالمی سطح پر پلوامہ واقعہ کی مذمت کی جارہی ہے۔ پڑوسی ملک چین کا موقف مشکوک دکھائی دیتا ہے۔ کشمیر میں موجودہ حالات کا فائدہ اٹھانے کیلئے کوئی بھی بیرونی طاقت موقع تلاش کرسکتی ہے اور ہندوستان کے آنے والے عام انتخابات سے قبل اس طرح کے دہشت گرد حملے ان موقع تلاش کرنے والے گروپس کی ہی کارستانی ہوتی ہے۔ اب جموں و کشمیر ہو یا ہندوستان کا کوئی اور شہر سیاسی مفادات کی خاطر کہیں بھی کسی بھی وقت دہشت گرد حملے کروائے جاسکتے ہیں۔ چین نے اگرچیکہ پلوامہ دہشت گرد حملے کی مذمت کی ہے مگر اس کی درپردہ پالیسیوں سے واقف ہونا حکومت ہند کیلئے ضروری ہوگا۔ جس ملک نے اقوام متحدہ کو مسعوداظہر کے خلاف کارروائی کرنے سے روک دیا ہے اس پس منظر میں اس حملے کو دیکھا جائے تو حکومت ہند کے سامنے کئی پہلو اجاگر ہوسکتے ہیں۔ پلوامہ دہشت گرد حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم جیش محمد کے صدر مسعود اظہر کے بارے میں چین مثبت موقف کیوں رکھتا ہے یہ بھی غور طلب امر ہے۔ ہندوستان کو اس جانب توجہ دیتے ہوئے اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے تعلق سے تلخیوں میں اضافہ کا مؤجب بننے والے واقعہ پر سخت گیر موقف اختیار کرنا ضروری تو ہے مگر وہ کسی تیسرے فریق کی سازشوں کا شکار تو نہیں ہورہا ہے، یہ بھی غور طلب ہے۔