وسیلہ کی حقیقت … ایک تحقیقی جائزہ

مولانا ابو بکر محمد الہاشمی علیہ الرحمہ سابق صدر دائرۃ المعارف العثمانیہ
{قسط اول}
اللہ رب العزت اپنے کلام پاک میں ارشاد فرماتے ہیں یٰٓایھا الذین آمنوا اتقوا اﷲ وابتغوا الیہ الوسیلۃ ی{سورۃ المائدہ، ۳۵} ہاں ’وسیلہ‘ کو عام قرار دیا گیا ہے اور اس کے تحت اشخاص وذوات حق کا وسیلہ اور عمال صالحہ کا وسیلہ بھی شامل ہے ۔ بلکہ شریعت کی رو سے محض ’’الوسیلہ ‘‘ کے لفظ سے اسی وسیلہ کی طرف ذہن متبادر ہوتا ہے اور ہمیں سیرت کی کتب اور تاریخ رجال اسلام میں بے شمار واقعات شخصی و عملی وسیلوں کے ملتے ہیں خواہ وہ ذوات طیبہ اس دنیاوی عالم میں ہوں یا عالم برزخ میں منتقل ہوچکے ہوں، کیونکہ اہل حق حشر و نشر و بعث و حیات بعد الممات کو اسلام کا بنیادی عقیدہ مانتے ہیں اور بدن سے روح کے جدا ہونے پر بھی جزئی ادراکات ،سزا و جزاء، بلندیٔ درجات ،ثواب وغیرہ ایک مسلمہ اسلامی عقیدہ ہے ،اس کا انکار ادلۂ شرعیہ کا انکار کرتا ہے ۔ یعنی برزخ کو منتقل ہونے کے باوجود اس دنیا سے بھی ذوات کا تعلق کسی نہ کسی طریقہ سے برقرار رہتا ہے بلکہ اہل تحقیق کے نزدیک انبیاء کرام ،صدیقین شہدا فی سبیل اللہ اوراولیائے مقربین و صلحاء کی ’’حیات برزخی ‘‘ کا تعلق حیات دنیاوی سے بھی رہنا ثابت ہے یہاں تک کہ انبیاء کے عمل صالح کا اب تک جاری رہنا بھی ثابت ہے ۔

ابھی جو بتلایا گیا ہے کہ آیت مذکورہ بالا میں اشخاص و ذوات کا توسل بھی شامل ہے تو یہ محض دعوی اور صرف رائے ہی نہیں ہے اور نہ عربی زبان کے قاعدہ عموم سے فائدہ اٹھانا ہے ،بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی اس آیت کا مفہوم رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے یہی سمجھا اور اس کے مطابق عمل بھی کیا ہے ۔ چنانچہ امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی اس آیت کے مفہوم کو توسل بالا شخاص پر منطبق کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بن عبدالمطلب کا وسیلہ لیکر رب العزت سے بارش کی دعا مانگی اور پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: ھذا واﷲ الوسیلۃ الی اﷲ عزوجل المکان منہ و اتخذواہ یعنی العباس وسیلۃ الی اﷲ یعنی خدا کی قسم یہی طریقہ اللہ کی طرف وسیلہ اختیار کرنے کا ہے۔ اے لوگو !حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا توسل اللہ کی خدمت میں پیش کیا کرو۔

علامہ ابن عبدالبرنے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے احوال پر مشتمل کتاب الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں اور صاحب نسب قریشی نے بھی تفصیل سے اس واقعہ کاذکر کیا ہے ۔ اسی طرح صحابہ کرام نے رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے توسل کا طریقہ سیکھا تھا اور اس پر برابر عمل کرتے رہے تھے ،صحابی رسول حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب بھی دعا کی اس میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا توسل ضرور اختیار کیا ،تخاطب نہ صرف رب العزت سے کرتے بلکہ سردار دو عالم و مختار کل سے مخاطب ہوکر عریضہ پیش فرماتے یامحمد انی تو جھت لک الی ربی کیونکہ رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کو اسی لفظ کی تعلیم دی تھی

اسی لئے لفظ کو استعمال کرتے ہوئے اسم مبارک لیتے تھے ۔ نیز ایک نابینا صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو سردار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان ہی الفاظ سے دعا کرنے کی تعلیم دی ہے ۔ اس حدیث کو ائمہ حدیث نے صحیح قراردیا ہے {آگے ہم ان ساری احادیث پر بحث کریں گے} اس طرح حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی حدیث کے الفاظ بھی اسی بات پر دلالت کرتے ہیں : بحق نبیک والانبیاء الذین من قبلی اس حدیث کے سارے رجال ثقات ہیں اور روح ابن صلاح کے تعلق سے بھی امام المجتہدین حاکم نے ثقہ مامون کہا ہے نیز ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میںان کو ذکر کیا ہے یہ حدیث شریف صریح دلیل ہے کہ توسل جہاں اس دنیا کے اشخاص سے لیا جاتا ہے وہیں عالم برزخ کے اشخاص کا توسل بھی درست ہے ۔ اس میں زندوں مردوں کی بحث نہیں ہے اور سارے انبیاء کے جاہ و مرتبہ کا توسل بتلایا جارہا ہے ۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حدیث کے الفاظ ہیں اللھم أسالک بحق السائلین علیک اوریہ الفاظ تمام اہل حق سے عمومی توسل کے معنی دے رہے ہیں خواہ وہ کسی بھی عالم میں ہو دنیا میں یا برزخم میں اس حدیث کی سند میں’’ ابن مرزوق ‘‘سے ’’ابن موفق ‘‘ کا تفرد بھی نہیں اوروں نے بھی روایت کی ہے اور ابن مرزوق تو امام مسلم کی صحیح کے رجال میں سے ہیں ،نیز اس کی سند میں حضرت عطیہ کی کئی روایات کو امام ترمذی رحمہ اﷲ نے ’’حسن‘‘ کہا ہے {جیسا کہ ہم آگے ذکرکریںگے }۔ انبیاء کرام اور صلحاء و اولیائے کرام کا وسیلہ لیکر دعا مانگنے اور توسل کے عمل پر امت محمدیہ کا عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے زمانے سے اب تک طبقہ عن طبقہ پشت ہاپشت سے برابر چلا آرہا ہے ،چنانچہ حضرت امیر المومنین خلیفہ رسول اللہ عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے الفاظ وانا نتوسل الیک بعم نبینا صحابہ کا توسل صحابہ سے ثابت کرتے ہیں اس واقعہ میں حضرت امیر المومنین عمر کا توسل عن شخص العباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا انشاء ہے یہ جملہ خبر کا فائدہ نہیں دیتا اس لئے کہ رب سبحانہ تعالی متوسلین کے توسل کو خوب جانتا ہے اور اس جملہ میں لازم فائدۃ الخبر بھی نہیں پایا جاتا کیونکہ اللہ تعالی متوسلین کے اپنے توسل سے آگاہ رہتے ہوئے بالا رادہ توسل اختیار کرنے سے بھی بخوبی واقف ہیں اس جملہ میں صرف اور صرف توسل بہ اشخاص کا انشاء ہی ہے ،نیز ایک اور صحابیرضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس قول میں کہ کنا نتوسل ۔الخ بھی انشاء کا فائدہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل ہی توسل بالدعاء کا رہاہے کہ یہ حضرات ہر حال میں حضور اکرام صلی اللہ وآلہ و اصحابہ وسلم کے وسیلہ سے ہی دعائیںمانگا کرتے تھے ۔ یعنی آپ کے اس دنیاے آب و گل میں تشریف فرماہوتے وقت بھی اور’’ الرفیق الاعلی‘‘ تشریف لے جانے کے بعد بھی عام الرمادۃ {یعنی قحط کے سال } تک بھی وسیلہ لیکر ہی دعا مانگا کرتے تھے ۔

رہا توسل صرف حیاۃ دنیا ہی میں لینا اور پردہ فرمانے کے بعد توسل کا ترک ماننا تو اس عقیدہ کی بھی کوئی اصل نہیں۔ اوپر ہم نے ذکر کیا کہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سارے انبیاء عظام علیہم السلام کے توسل سے دعا مانگتے تھے نیز حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی آپ کا توسل لیا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عم نبی حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا توسل اس لئے لیا تھا تا کہ صحابہ کو یہ بات بھی معلوم ہو کہ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کا توسل درست ہے اسی طرح آپ کی قرابت قریبہ ،اہل خاندان کا توسل بھی درست ہے ۔ نیز منشاء عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عم مصطفی سے دعاء کروانا بھی تھا یعنی بزرگوں کے رہتے ہوئے دعا میں خود کی پیش قدمی مناسب نہیں بلکہ بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے دعا کروانا اور توسل لیکر دعا کی تعلیم دینا مقصود امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تھا چنانچہ امام ابن عبدالبرما لکی نے ’’الا ستیعاب فی معرفۃ الاصحاب‘‘ میں یوں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے :

حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں بڑا زبردست قحط پڑا اور زمین سخت خشک ہوگئی اور عام رمادہ سنہ ۱۷؍ ہجری میں لوگ بڑی مصیبت میں آگئے حضرت کعب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو بنی اسرائیل اور تورات کے بڑے عالم بھی تھے امیر المومنین عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ۔ یا امیر المومنین بنی اسرائیل پر جب بھی اس قسم کی افتاد پڑتی تھی وہ انبیاء کرام سے دعا کرواتے اور ان کا توسل لیکر استسقاء کرتے تھے ! سیدنا عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دھیان یہ سنکر فوراً بزرگ اسلام سیدنا عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عم مصطفی کی طرف گیا آپ نے کہا لو یہ حضرت عباس موجود ہیں جو حضور رسالت پناہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چچا اور بنی ہاشم کے سربراہ ہیں ان بزرگ سے دعا کروانی چاہئے چنانچہ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فورا حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دراقدس پر حاضر ہوئے اور خشک سالی اور مصیبت عامہ کا شکوہ کیا ۔

الخ یعنی ان سے دعا کروائی ،اور ان کا توسل لیکر سب نے دعا کی ،کیا اس روایت میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے عمل سے کوئی شائبہ بھی نکلتا ہے کہ وہ سید المرسلین کو نعوذ باللہ ’’مردہ ‘‘سمجھتے تھے ؟یا سید المرسلین کے تعلق سے یہ سمجھتے تھے کہ اب آپ کا مرتبہ عند اللہ کچھ بھی نہیں ! نعوذ باﷲ من ذالک، اس امت میں نکلے ہوئے دجال و مفتری کیا کیا باتیں شیطان کے وساوس کے سبب گڑھتے ہیں۔ امام ابو سعد سمعانی رحمہ اﷲ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب الانساب میں جگہ جگہ بزرگوں کی مزارات کے تعلق سے تحریر کیا ہے کہ وقبرہ یزارو یتبرک بہ اسی طرح خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد میں متعدد جگہ استبراک و توسل کا ذکر کیا ہے کیا یہ سب ائمہ اسلام اور امت محمدیہ ازقرن اول تا ایندم قبرپرست اور مشرک قرار دیئے جائیں گے اور کیا رسول مکرم صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم قبر پرستی کا حکم دیں نعوذ باﷲ من الشرور ۔
{نوٹ: مضمون نگار کا وصال ۲۵؍ ربیع الثانی۱۴۳۰ ہجری
مطابق ۳۰؍اپریل ۲۰۰۸، چہارشنبہ کو ہوا}