وزیر اعظم کی جملہ بازیاں

دے کر کھلونے اسطرح بہلاؤ نہ اُنھیں
بچے ہمارے دَور کے ہشیار ہوگئے
وزیر اعظم کی جملہ بازیاں
شدت کی انتخابی مہم کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی مسلسل اپنی جملہ بازیوں کے ذریعہ رائے دہندوں کو گمراہ کرنے کی کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں ۔انتخابات میں کارکردگی اور حکومت کے پروگراموں کو موضوع بحث بنانے کی بجائے مودی اپنے آپ کو اب تو مظلوم کے طور پر بھی پیش کرنے پر اتر آئے ہیں۔ اس سے انتخابی ماحول میں ان کی بوکھلاہٹ اور پریشانی کا اندازہ ہونے لگا ہے ۔ اترپردیش جیسی ملک کی سب سے بڑی اور سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاست میں جہاں ایس پی ۔ بی ایس پی اور آر ایل ڈی اتحاد نے بی جے پی کی پریشانیوں میںاضافہ کردیا ہے وہیں پرینکا گاندھی کی آمد سے ریاست میں کانگریس کے ووٹ شئیر میں بھی اضافہ ضرور ہوگا ۔ اس صورتحال میں بی جے پی کو اس ریاست میں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ اسی طرح مدھیہ پردیش ‘ راجستھان ‘ گجرات ‘ چھتیس گڑھ اور مہاراشٹرا و بہار میں بھی بی جے پی اپنے سابقہ مظاہرہ کو دہرانے کے موقف میں نظر نہیں آتی ۔ جنوبی ہند کی ریاستوں میں اس کا وجود سوائے کرناٹک کے دوسری ریاستوں میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مغربی بنگال میں ممتابنرجی اسے قدم جمانے کا موقع نہیں دے رہی ہیں۔ حکومت کے وعدوں پر سے عوام کو بھروسہ اٹھ گیا ہے ۔ وہ حکومت کے کام کاج سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ خاموش انداز میں حکومت کے خلاف ایک طرح کی لہر سی چل رہی ہے۔ اس صورتحال کا وزیر اعظم کو اندازہ ہونے لگا ہے ۔ بی جے پی خود بھی اس سے خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے ۔ اسی وجہ سے وزیر اعظم اپنی حکومت کی کارکردگی ‘ حکومت کی اسکیمات اور پروگراموں پر عوام سے ووٹ مانگنے کی بجائے پلواما کے شہیدوں کے نام پر ‘ سرجیکل اسٹرائیک کے نام پراور فوجیوں کی بہادری کے نام پر ووٹ مانگنے لگے ہیں۔ یہ ایک طرح سے خود حکومت کی ناکامیوں میں کا اعتراف ہے لیکن ہمارا میڈیا جو زر خرید میڈیا میں تبدیل ہوگیا ہے یہ سب کچھ عوام کے سامنے پیش کرنے کی بجائے مودی ۔ مودی کے نعروں میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے میں مصروف دکھائی دے رہا ہے۔اسے حقیقی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیںرہ گئی ہے ۔
وزیر اعظم جس وقت سے انتخابی عمل کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے مسلسل جملہ بازیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ وہ کہیں جاتے ہیں تو کیسا ہے جوش کا نعرہ لگاتے ہیں اور کہیں شہیدوں کی دہائی دیتے ہیں۔ کہیں تو اب وہ مظلوم بنتے نظر آر ہے ہیں۔ آج مدھیہ پردیش میں انہوںنے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوںنے کوئی غلطی کی ہے تو ان کے گھر پربھی انکم ٹیکس کا دھاوا کیا جانا چاہئے ۔ اب سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس کے دھاوے کریگا کون ؟۔ کیا اپوزیشن جماعتیں یہ دھاوے کرواسکتی ہیں۔ در اصل یہ سوال اپوزیشن کے اس الزام کا جواب دینے کی کوشش ہے کہ حکومت انتخابی عمل کے دوران اپنے سیاسی مخالفین کو خوفزدہ کرنے کیلئے ان کے گھروں اور دفاتر پر انکم ٹیکس کے دھاوے کروا رہی ہے ۔ اس سے قبل جب نوٹ بندی کا بحران چل رہا تھا مودی نے کہا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ کچھ لوگ انہیں جان سے مارنے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں ۔ یہ در اصل خود کو مظلوم بنا کر پیش کرنے کی کوشش ہے لیکن اس سے وزیر اعظم کے کمزور ہونے کا پتہ چل رہا ہے ۔ گذشتہ دنوں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی واڈرا نے کہا تھا کہ ہندوستان نے اتنا کمزور وزیر اعظم پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا جتنا اب ہے۔ وزیر اعظم اپنے جملوںاور تقاریر کے ذریعہ پرینکا گاندھی کے الزام اور بیان کو درست ثابت کرتے نظر آ رہے ہیں۔
نریندر مودی اور امیت شاہ کی جوڑی حکومت کے پروگراموں میک ان انڈیا ‘ اسٹارٹ اپ انڈیا ‘ سوچھ بھارت ‘ اسکل انڈیا اور ایسے ہی کئی دوسرے پروگراموں ‘ نوٹ بندی ‘ جی ایس ٹی کے نفاذ جیسے فیصلوںوغیرہ پر عوام سے ووٹ مانگتے نظر نہیں آر ہے ہیں۔ یہ صرف جذباتی استحصال کے ذریعہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کوشاں ہیں۔ وہ کہیں جاتے ہیں تو اپوزیشن کو مہا ملاوٹ اتحاد قرار دیتے ہیں حالانکہ خود این ڈی اے میں اپوزیشن اتحاد سے زیادہ جماعتیں شامل ہیں۔ وہ بنگال جاتے ہیں ممتا بنرجی کو نشانہ بناتے ہیں۔ جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں ان کی خامیوں اور ناکامیوں پر کوئی ریمارک نہیں کیا جاتا ۔ جملہ بازیوں سے انتخابات جیتنے کی یہ کوششیں گذرتے وقت کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی ہیں لیکن یہ شائد کامیاب نہ ہونے پائیں گی ۔