وزارت اقلیتی امورکی کارکردگی

قول و عمل میں فرق نظر آیا اس قدر
دیکھے جو کام ان کے تو آنکھیں ابل پڑیں
وزارت اقلیتی امورکی کارکردگی
مرکزی وزارت اقلیتی امور کی کارکردگی پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ ایک پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی نے وزارت کی جانب سے اپنے بجٹ کو خرچ کرنے میں ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے ۔ پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی برائے سماجی انصاف و امپارمنٹ نے ایک طرح سے زچ ہوتے ہوئے یہ واضح کردیا ہے کہ اب کمیٹی کی جانب سے وزارت کو بجٹ میں مختص رقومات کے خرچ پر مزید کوئی تجویز پیش نہیں کی جائیگی ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پارلیمانی کمیٹی بھی وزارت اقلیتی امور کی کارکردگی سے عملا مایوس ہوگئی ہے ۔ ویسے تو مرکزی سطح پر جو وزارت اقلیتی امور ہے اس کا بجٹ محض 4 ہزار ایک سو کروڑ روپئے ہے جو ملک کے لاکھوں کروڑ کے بجٹ میں انتہائی معمولی ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب اگر دیکھا جائے اور اس کیلئے سرکاری اعداد و شمار ہی کو درست مان لیا جائے تب بھی یہ بجٹ انتہائی معمولی اور نہ ہونے کے برابر ہے ۔ افسوس اس بات پر ہے کہ اس انتہائی معمولی بجٹ کو بھی وزارت اقلیتی امور کی جانب سے پورا کا پورا خرچ نہیں کیا جا رہا ہے ۔ قومیح سطح پر اقلیتی امور کی وزارت کے ذمہ کئی کام ہیں۔ کئی اسکیمات ہیں جنہیں برفدان کی نذر کردیا گیا ہے ۔ کئی پروگرامس ہیں جن کی تشہیر تو بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے اور حکومت مختلف موقعوں پر ان اسکیمات کو اپنے کارناموں کے طور پر پیش کرتی ہے ۔ خود وزیر اقلیتی امور مختار عباس نقوی ان اسکیمات کا بارہا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں تھکتے ۔ مختار عباس نقوی یہ دعوی کرتے ہیں کہ نریندر مودی کی قیادت والی بی جے پی حکومت اقلیتوں کی خوشامد کی بجائے انہیں بااختیار بنانے پر زیادہ توجہ دے رہی ہے اور اس کیلئے کئی پروگرامس اور اسکیمات شروع کئے گئے ہیں۔ یہ دعوی محض تشہیر کی حد تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ عمل کے میدان میں پہلے تو مودی حکومت کی کارکردگی ہی نہ ہونے کے برابر ہے اور اس میں خاص طور پر وزارت اقلیتی امور کی کارکردگی تو صفر کے برابر ہی رہ گئی ہے ۔مختار عباس نقوی وہ وزیر ہیں جنہوں نے بے شمار موقعوں پر یہ دعوی کیا کہ ان کی وزارت کی جانب سے ملک میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو با اختیار بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے جا رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ محض زبانی جمع خرچ ہے اور عمل ندارد ہے ۔
ویسے تو مرکز میں قائم ہونے والی تقریبا ہر حکومت میں اقلیتی امور کی وزارت کی کارکردگی افسوسناک ہی ہوتی ہے ۔ اس وزارت کیلئے بجٹ بھی معمولی سا فراہم کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد بھی محض ضابطہ کی تکمیل ہوتا ہے تاہم جس وقت سے مرکز میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت قائم ہوئی ہے اور مختار عباس نقوی کو اس وزارت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اس وقت سے اس کی کارکردگی انتہائی افسوسناک ہوگئی ہے ۔ کئی اسکیمات صرف کاغذ پر موجود ہیں لیکن عمل کے میدان میں یہ وزارت صفر ہے ۔ قومی سطح پر طلبا و طالبات کی دی جانے والی اسکالرشپس بھی محض رسمی اعلان تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔ اقلیتوں کو علیحدہ سے جو اسکالرشپ دی جاتی تھی اس کو نت نئے بہانے پیش کرتے ہوئے عملا ختم ہی کردیا گیا ہے ۔ اقلیتی نوجوانوں اور بیروزگار افراد کو مہارت سے آراستہ کرنے کے پروگرامس کا اعلان کیا گیا لیکن وہ بھی صرف اعلان تک محدود ہیں۔ کچھ مقامات پر کمپیوٹر سنٹرس قائم کئے گئے تھے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ ان کیلئے بھی کوئی سہولیات فراہم نہیں کی جا رہی ہیں۔ مختار عباس نقوی ایسا لگتا ہے کہ صرف دکھاوے کیلئے وزیر ہیں اور وہ خود بھی نہیں چاہتے کہ اقلیتوں کیلئے کوئی کام ہو اور اس وزارت کو مختص کردہ رقومات خرچ کی جائیں۔ وہ صرف اعلانات کرتے ہوئے اور حکومت یا وزیر اعظم کی مدح سرائی کرتے ہوئے اپنی کرسی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔ اس میں وہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں لیکن ان کی جو ذمہ داریاں ہیں ان کی تکمیل میں وہ بری طرح ناکام ہیں۔
وزارت اقلیتی امور کا جو بجٹ ہے وہ انتہائی معمولی ہے ۔ اس ملک میں مسلمانوں یا دوسری اقلیتوں کی جو حالت ہے اور ان کیلئے جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے اس کے مطابق بجٹ میں کئی گنا اضافہ کی ضرورت پڑیگی لیکن وزارت اقلیتی امور ان سب کاموں کو آگے بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ۔ یہی وجہ ہے کہ انتہائی معمولی بجٹ کو بھی سال بھر کے وقفہ میں خرچ نہیں کیا جا رہا ہے اور یہ اندیشے لاحق ہوگئے ہیں کہ جو معمولی سا بجٹ فراہم کیا گیا تھا اس کا بھی تقریبا 40 فیصد حصہ واپس سرکاری خزانہ میں چلا جائے ۔ اس بجٹ کی واپسی اور عدم خرچ کی وجہ سے وزارت کی اقلیتوں کے تعلق سے اور اس کے تفویض ذمہ داریوں کے تعلق سے غیر سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مختار عباس نقوی حکومت کی مدح سرائی کو ترک کرکے اپنی ذمہ داریوں کی تکمیل کیلئے کوشش کریں اور وزارت کو متحرک کرنے پر توجہ دیں۔