وادی کشمیر میں جھڑپیں

جموں و کشمیر کے جنوبی علاقے پہلے ہی سے حساس ہے ‘ اب محبوبہ مفتی زیر قیادت پی ڈی پی اور بی جے پی اتحاد کی حکومت کے دور میں یہ علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہورہا ہے تو اس کی وجوہات پر غور کئے بغیر ہی ریاستی و مرکزی حکومتوں کے ذمہ داروں نے اپنی حکمرانی پر سیاہ پٹی باندھ کر بیانات دیئے تو حالات کو بہتر بنانے کی کوششیں رائیگاں ہی جائیں گی ۔ اس ریاست کے شمالی حصہ میں عسکریت پسندوں اور سیکورٹی فورسیس کے درمیان تازہ جھڑپوں میں چار عسکریت پسند اور تین سپاہی ہلاک ہوئے ۔ اس علاقہ میں انتہا پسندوں کی موجودگی کی اطلاع پر پولیس ‘ نیم فوجی دستے سی آر پی ایف اور فوجی جوانوں نے مشترکہ تلاشی مہم شروع کی ۔ ان کی کارروائی شروع ہونے سے قبل ہی انتہا پسندوں نے سیکورٹی عملہ پر خود کار ہتھیاروں سے حملہ کیا جس میں ایک آفیسر میجر تھاپہ شدید زحمی ہوئے ‘ یہ لڑائی تقریباً تین گھنٹے تج جاری ہی ۔ وادی کشمیر کو  میدان جنگ بنانے والے عوامل میں حکومتوں کی ان کوششوں کا اہم رول رہا ہے جن سے کشمیری عوام میں غم و غصہ بھڑک اٹھتا ہے ۔ کشمیر ایک طرف قدرتی آفات سے متاثر ہے تو دوسری طرف حکومتوں کی بے حسی کا شکار ہے ۔ جنوری ‘ فبروری 2017ء میں وادی کشمیر شدید برفباری اور برفانی تودے گرنے سے اموات و نقصانات سے دوچار رہی ہے ۔ کشمیر کا مرکز سے رابطہ صرف حکومت کی سطح تک ہوتا ہے تو عوام رابطہ کاری  برفانی طوفان کی نذر ہوجاتی ہے ۔ بین ریاستی رابطہ کاری کیلئے بھی اب تک اچھے کام شروع نہیں کئے گئے ۔ اگر اس وادی کشمیر کو بین ریاستی رابطہ کاری سے جوڑا جائے تو یہاںمثبت و معاشی توازن اور ایک آزاد معیشت کو فروغ حاصل ہوگا لیکن اس مسئلہ پر متعلقہ حکومتوں کو کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔ کشمیر میں جب کبھی انتہا پسندوں سے خلاف انکاؤنٹر کے واقعات ہوتے ہیں تو مقامی عوام سب سے زیادہ بھڑک اٹھتے ہیں ‘ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وادی کے لوگ سپاہیوں کو ہرگز پسند نہیں کرتے ۔ کشمیر کی پولیس کے پاس یہ ریکارڈ ہے کہ فی الوقت کشمیر میں 150مسلحہ مزاحمت کار ہیں ‘ ان میں سے 79 مقامی اور مقامی مزاحمت کاروں میں سے 60 صرف جنوبی کشمیر میں سرگرم ہیں ۔ کشمیری عوام کو عصری سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ انٹرنیٹ یا موبائیل رابطہ بھی بسا اوقات منقطع کرلئے جاتے ہیں ۔ گذشتہ سال کی 6ماہ طویل کشمیری عوام کی احتجاجی تحریک کے دوران سرکاری کارروائیوں میں کم از کم 100 افراد کی ہلاکت اور ہزاروں زخمی ہونے کی اطلار پر توجہ نہ دینے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج وادی کشمیر پھر ایک بار انتہا پسندوں اور فوج کے درمیان تصادم کی نوبت زیادہ کھڑی ہوتی ہے ۔ سیکورٹی فورس کا یہ ماننا ہے کہ جنوبی کشمیر میں لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین سے وابستہ افراد رہتے ہیں ۔ اس شبیہہ کو تقویت دینے کیلئے سیکورٹی فورسیس کارروائیوں کو حق بجانب ہی قرار دیتی ہیں ۔ وادی کے لوگوں کی زندگیوں کوخواہشات سے محروم کردینے سے بھی امن درہم برہم ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ وادی میں متعلقہ حکام کی جانب سے عائد کی جانے والی مسلسل پابندیوں نے ہی کشمیری نوجوانوں کو مسلح مزاحمت کی طرف مائل کرنا شروع کیا ہے ۔ ان می ںحصہ لینے والوں میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں ۔ جب تشدد اور موت کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو ’’ ہر کوئی مرتا کیا نہ کرتا ‘‘ کے مصداق بے خوف ہوکر حالات کا سامنا کرنے کی تیاری کرلیتا ہے ۔ وادی میں بھی لوگ اب بے خوف ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ‘ان کی مزاحمت اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے نام پر بعض سیکورٹی جوانوں کی زیادتیوں کیخلاف یہ نوجوان مسلہ احتجاج کرتے آرہے ہیں ۔ اب یہ خیال بھی تیزی سے تقویت پارہا ہے کہ مخالف حکومت مظاہروں کو طاقت کے ذریعہ نہ پانے سے کشمیری نوجواونں کے دلوں سے موت کا خوف دور ہوتا جارہا ہے ۔ جب کوئی نوجوان موت کو گلے لگالینے کا جذبہ پیدا کرلیتا ہے تو مسائل مزید نازک رُخ اختیار کرجاتے ہیں ۔ بہرحال وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جو بھی حالات رونما ہورہے ہیں اس کی وجہ حکومت اور سیکورٹی فورسیس کی کوتاہیاں  یا زیادتیاں سمجھی جارہی ہیں تو ایسے واقعات کی جانب فوری توجہ کر کے مسائل کی یکسوئی کو یقینی بنانا ہوگا ۔ عوام میں جب اپنی حکومتوں پر سے بھروسہ اٹھ جاتا ہے تو خلیج اور بڑھ جاتی ہے ۔ ریاست کشمیر کے ساتھ روا  رکھے گئے سلوک کا اگر حکومت دیانتدانہ جائزہ لے تو اس کو اپنی ماضی اور حال کی کارروائیوں میں خرابیاں دکھائی دیں گی ۔ اگر یہ جائزہ لینے کیلئے ہی تیار نہ ہو تو پھر حالات کی بہتری کی توقع کرنا بھی فضول ہوگا ۔