نیکی کا سفر

امی ! میں نے سلمان صاحب سے بات کرلی ہے۔ وہ مجھے ملازم رکھنے پر راضی ہوگئے ہیں۔ پندرہ سالہ حسام خوشی خوشی اپنی امی کو بتارہا تھا، حسام کی والدہ اس سے کام کروانا نہیں چاہتیں تھیں، مگر مجبوری ہی کچھ ایسی تھی ، وہ بے دلی سے مسکرادیں والد کے انتقال کے بعد حالات نے وقت سے پہلے ہی حسام کو سمجھ دار بنادیا تھا۔ وہ میٹرک کاامتحان پاس کرچکا تھا۔ سلمان صاحب کی موٹر مکینک ورکشاپ تھی۔ چند مہینے میں ہی حسام نے اپنے کام پر اتنا عبور حاصل کرلیا تھا، جس کیلئے کئی سال درکار تھے۔
سلمان صاحب نے اس کی تنخواہ بڑھا دی تھی۔ ایک بار سلمان صاحب کے دوست ڈاکٹر صلاح الدین صاحب اپنی گاڑی ٹھیک کرانے آئے ڈاکٹر صاحب سے یہ اس کی پہلی ملاقات تھی۔ سلمان صاحب کہیں گئے ہوئے تھے۔ وہ حسب عادت پوری توجہ سے ڈاکٹر صاحب کی کار پرکام کررہا تھا۔ کچھ دیراسے توجہ کام کرتے دیکھتے رہے ، پھر انھوں نے اس کانام پوچھا : حسام الدین جواب دے کروہ پھر کام میں لگ گیا تھا۔ تمھارے والد کیا کرتے ہیں ؟ جی وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ تم پڑھتے نہیں ہو ؟ انھوں نے ہمدردی سے پوچھا۔ نہیں مجھے پڑھنے کا شوق تو بہت ہے، لیکن حالات کی وجہ سے مجبور ہوں۔ کچھ دیراور اس سے باتیں کرتے رہے۔ اس دوران گاڑی کاکام مکمل ہوگیا تو اس نے کہا : لیجیے آپ کاکام ہوگیا۔ حسام بیٹا! کیا تم مجھ سے میرے کلینک میں مل سکتے ہیں ہو، اُسی وقت کارڈ بڑھاتے ہوئے اس کی طرف انھوں نے کہا۔ ان کے لہجے میں کچھ ایسا تاثر تھا کہ حسام نے وہ کارڈ لے لیا۔ اتنے میں سلمان بیگ آگئے اور ڈاکٹر صاحب ان کی طرف بڑھ گئے۔ دوسرے دن حسام کلینک پہنچ گیا، مجھے تمھارے آنے سے بہت خوشی ہوئی حسام میاں ! جانتے ہو جب میں نے تمہیں پہلی دفعہ دیکھا ، مجھے اسی وقت اندازہ ہوا کہ تمھارا کسی مہذب گھرانے سے تعلق ہے۔ پھر جب تم نے بتایا کہ تمھارے والد کا انتقال ہوگیا تو مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ حسام میاں ! کیا تم تعلیم پھر سے شروع کرناچاہتے ہو ؟ ’’ جی انکل ‘‘ حسام کا جھکا ہوا چہرہ ذرا اٹھا تو اس میں اْمید کی کرن تھی۔ اچھی بات ہے ، میں تمھاری تعلیم کا پورا خرچ اْٹھاؤں گا، بس تم دل لگاکرتعلیم حاصل کرنا۔ ڈاکٹر صاحب ! میں کس طرح آپ کے اس احسان کا بوجھ اْٹھاؤں گا، جسے میں اْتار بھی نہیں سکتا۔ حسام واقعی بہت خود دار تھا۔ یہ میں تم پراحسان نہیں کررہا ہوں حسام میاں ! ایک فرض ادا کررہا ہوں۔ سنو، میرے والدین بہت غریب تھے۔ میرے پاس اعلی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وسائل نہیں تھے۔ ان حالات میں میرے ایک استاد نے ہی مجھے تعلیم دلوائی ، مجھے ڈاکٹر بنایا۔ ایک دن میں اس قابل ہوگیا کہ ان کا کچھ احسان اْتار سکوں۔ میں ان کے پاس گیا۔ ان کا احسان یاد دلایا تو انھوں نے جوکہا، ان کے الفاظ مجھے آج تک یاد ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ برخوردار ! میں نے تمھیں ا س لیے تعلیم نہیں دلوائی کہ تم مجھے پر مہربانی کرکے میری نیکی برباد کردو، اسے ختم کردو۔ نیکی سفر کرتی ہے۔ ہاں اگر تم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہو تو کسی ایسے بچے کو جو تعلیم کا شوقین ہو، مگر اس کے پاس وسائل نہ ہوں، اسے تعلیم دلوادینا ، تو حسام میاں ! میں صرف اپنے استاد کا قرض اْتار رہا ہوں۔ مگر چہرے پر پھر ایک اْلجھن آئی : انکل ! میں صبح ورکشاپ جاتاہوں اور رات دس بجے واپس آتا ہوں۔ تعلیم کیلئے وقت کیسے نکال پاؤں گا ؟ اگلے دن حسام ورکشاپ پہنچا تو دیکھا کہ باہر ہی ڈاکٹر صلاح الدین اور سلمان بیگ کھڑے مسکراتے ہوئے باتیں کررہے تھے۔ وہ ورکشاپ کے اندر چلاگیا۔ تھوڑی دیر بعد سلمان صاحب اندر آئے اور کہنے لگے: حسام ! مجھے بہت خوشی ہوئی تم نے پھر سے پڑھائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ، میں تمھاری ہر ممکن مدد کروں گا اور ہاں، اب تم شام چھ بجے ہی چھٹی کرلیا کرو۔ حسام کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ حسام نے شام کے کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ وہ انتہائی ذہین تھا۔ اس نے اپنے لئے تجارت کے شعبے کا انتخاب کیاتھا۔ کبھی کبھار کوئی  مشکل سوال ہوتا تو وہ ڈاکٹر صاحب کے بیٹے خرم سے مدد لیتا تھا۔ حسام نے بی کام کے بعد ایم کام بھی اچھے نمبروں سے پاس کرلیا۔ خرم نے سفارش کرکے اپنے بینک میں اچھی ملازمت بھی دلادی تھی۔ اب وہ بینک میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ یہ سفر کرتی نیکی کاایک اور پڑاؤ تھا۔