نیویارک کی مسجد عیٰسی ابن مریم کے متعلق جانکاری پر مشتمل ویڈیو

نیویارک کے اندرونی حصہ میں واقع اس مسجد کے چاند کا نشان واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ قبل ازیں یہ ایک گرجا گھر تھا۔یوسف سول نامی والینٹر کے مطابق یہاں پر مسجد قائم کرنا مشکل تھا لوگوں کو کافی اعتراض تھا ‘ امریکی ہونے کی وجہہ سے مجھے کمیونٹی کے لوگوں نے آگے کردیاتھا۔ میں ہمیشہ سے یہی کہتا تھا کہ یہاں کی دیواریں کئی برسوں سے قرآن کی آیات سننے کے لئے بے چین ہیں۔یوسف سول عمارت کے گرجاگھر سے مسجد کے تبدیل ہونے کے سفر میں شروع سے ساتھ ہیں ۔ ان کو کہنا ہے کہ مسجد میں اذان گونجے یہ اتنا آسان نہیں تھا۔

کچھ لوگ پریشان اور ناراض تھے جن کو میں جانتا بھی نہیں تھا وہ مجھ سے کافی ناراض تھے۔ماض کا یہ گرجا گھر مقامی لوگوں کی زندگی میں کافی اہمیت کاحامل تھا ‘ کیونکہ وہ لوگ یہیں پر پیدا ہوئے بڑے ہوئے ان کی شادیاں ہوئی اور ان کے بچے بھی یہیں پر پیدا ہوئے۔ان کاردعمل قابل فہم تھا۔ ہم نے سب کو بلاکر بات کی اور انہیں سمجھایا جس کے بعد وہ لوگ راضی ہوگئے‘ دراصل وہ لوگ چاہتے تھے خدا کے گھر میں خد ا کی ہی عبادت ہو۔جبکہ دوسرے لوگ جائیداد کی تین گنا قیمت پر خریدنے کو تیار تھے مگر جائیداد مسجد بنانے کے لئے کم پیسوں میں دیدی گئی۔

جس کے بعد عمار ت کی بحالی کاکام شروع ہوا اور امریکی یونیورسٹی کے آرکٹیکٹ کو اس کام پر مامور کیاگیا‘ جن کابچپن اسلامی ممالک میں گذراتھا۔اندر آتے ہی انہو ں نے کہاکہ یہ گرجا گھر نہیں مسجد ہے۔گرجا گھر سے اس عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کے لئے عمارت کے باہر نصب دس بڑے کراس ہٹائے گئے اب یہاں پر دو ہلال نظر آتے ہیں۔اور عمارت کے اندرونی حصہ میں بنی دس ہزار کراس پر رنگ کردیاگیا ہے۔

مگر اب بھی عیسائیت کی کچھ نشانیاں یہاں پر نظر آتی ہیں جن پر پردے ڈال دئے گئے ہیں۔اس مسجد کی خصوصیت میںیہ ہے کہ یہاں پر کوئی نامزد امام یاموذن نہیں ہے اور نہ خواتین اور مردوں ک لئے علیحدہ حصہ بنائے گئے ہیں۔افغانستان کے پناہ گزین سجاد سمیر کا یہاں پر مختلف ممالک کے لوگوں کے ساتھ وقت گذارنا اچھا لگتا ہے۔

یہاں پر رہنے والے زیادہ تر مسلمان ہیں جن میں ستر فیصد مسلمان ہی ہیں۔نہ مسلمانوں کے لئے بلکہ علاقے کے غیرمسلم افراد کے لئے بھی یہ مسجد سہولت کا باعث بنی ہوئی ہے۔یوسف سول کا کہنا ہے کہ امریکہ کے متعلق جو کہاجاتا ہے اس کے برخلاف یہاں کے لوگ دوسری قومیت کے لوگو ں کا کھولے دل سے استقبال کرتے ہیں۔