نیند …تندرستی کے لئے لازم وملزوم

آج سے سو سال قبل جب زمانہ عصری آلات سے لیس نہیں تھا اور انٹرنیٹ و اسمارٹ فون کی لعنت سے پاک معاشرہ تھا اس وقت عام طورپر لوگ شام چھ سات بجے سو جاتے اور وہ پھر صبح صادق کے وقت جاگتے۔جب بلب (لائٹ) اور ٹیلی ویژن ایجاد ہوئے تو  عوام کی نیند متاثر ہونا شروع ہوئی ۔ شام ہوتے ہی بلبوں کی روشنی سے گھر جگمگانے لگتے ،چناں چہ لوگ رات کو دیر تک جاگنے اور مختلف کاموں میں مصروف رہنے لگے۔ گویا بلب اور ٹی وی کی ایجاد نے انسان کا طرز زندگی ہی بدل ڈالا۔

اکیسویں صدی کے آغاز میں کمپیوٹر اور موبائل فون ایجاد ہوئے، تو ان الیکٹرونکس نے رت جگے کی مدت بڑھادی۔ اب کئی لوگ رات دیر گئے تک کمپیوٹر، موبائیل یا ٹی وی دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ شادی سمیت تمام گھریلو و کاروباری تقریبات بھی عموماً رات کو منعقد ہونے لگیں۔اس بدلتے طرز زندگی کے شاید فوائد بھی ہوں لیکن اس نے انسان کی صحت پر ایک بڑا برا اثر ڈالا… وہ یوں کہ انسانوں میں نیند کا فطری نظام متاثر کرڈالا۔ ایک تحقیق کے مطابق آج کا انسان ماضی کے انسانوں کی نسبت ’’ایک گھنٹہ‘‘ کم سورہا ہے۔کروڑوں حد درجہ مصروف مردو زن تو چوبیس گھنٹے میں صرف چار تا چھ گھنٹے کی نیند لے پاتے ہیں۔
نیند کی اہمیت
جس طرح کھانا پینا اور سانس لینا ہماری بقا کے لئے اہم ہے، اسی طرح سونا اور آرام کرنا بھی ہمیں تندرست رکھتا ہے۔ اہم ترین بات یہ کہ جب ہم سوتے ہوئے دنیا مافیہا سے بے خبر ہوجائیں، تو دماغ کا ایک کارخانہ پوری رفتار سے اس کی مرمت کا اہم کام انجام دینے لگتا ہے۔
اس کارخانے سے منسلک لاکھوں دماغی خلیے (نیورون) اب بھاگم دوڑ اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ ان راستوں کی صفائی کرتے ہیں جہاں الیکٹرک سگنل بھاگتے دوڑتے ہم سے روزمرہ کام کراتے ہیں۔ کارخانہ پڑتال کرتا ہے کہ کیا جسم میں ہارمونوں، خامروں (انزائمز) اور پروٹین کی وافر تعداد موجود ہے؟ نیز کارخانے کے کارکن وہ زہریلا فضلہ بھی دماغ سے نکال باہر کرتے ہیں جو جمع ہونے پر انسانی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
گویا نیند وہ قدرتی ٹانک ہے جس کے ذریعے انسانی بدن کا اہم ترین عضو اپنی مرمت کرتا اور ازسرنو خود کو مضبوط و کارآمد بناتا ہے۔ دن بھر کام کاج میں مصروف رہنے سے دماغ تھک جاتا ہے۔ تب نیند ہی اسے مطلوبہ آرام اور نئی توانائی فراہم کرتی ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق دماغ کے لئے نیند ہی سب سے بہترین اور مقوی ٹانک کی حیثیت رکھتی ہے۔

جدید تحقیق روزانہ رات کو سات آٹھ گھنٹے نیند لینے کے کئی فوائد دریافت کرچکی۔ مثال کے طور پر اچھی طرح سونے سے ہماری قوت ارتکاز بڑھتی ہے۔ ذہانت میں اضافہ ہوتا اور یادداشت تیز ہوتی ہے۔ہم اپنے منصوبے بہتر انداز میں تشکیل دیتے ہیں۔مزید برآں جسم میں چکنائی جلانے والے نظام تقویت پاتے ہیں۔ یوں ہمارا وزن قابو میں رہتا ہے۔ صبح سویرے اٹھیں، تو ہمیں تھکن نہیں تروتازگی کا احساس ہوتا ہے۔ نیند ہی ہمیں ذیابیطس، امراض قلب اور ہائپرٹینشن جیسے موذی امراض سے بچاتی ہے۔ حتی کہ کینسر، ہڈیوں کی بوسیدگی اور الزائمر چمٹنے کا خطرہ بھی جاتا رہتا ہے۔
لیکن انسان درج بالا تمام تحائف اسی وقت پاتا ہے جب فطری طور پر پوری نیند لے۔ گولیاں کھا کر سونے سے عموماً درج بالا فوائد حاصل نہیں ہوتے کیونکہ یہ بہرحال غیرفطری طریقہ ہے۔ اسی لیے اب مغربی ممالک میں ماہرین طب یہ تحریک چلارہے ہیں کہ اگر کسی نے جسمانی و ذہنی طور پر تندرست اور چاق و چوبند رہنا ہے، تو وہ فطری طریقے سے سات آٹھ گھنٹے کی نیند ضرور لے۔دنیا بھر میں کروڑوں انسان سمجھتے ہیں کہ وہ تین چار گھنٹے بھی سولیں تو صحت مند رہیں گے۔ وہ نیند کی کمی سے دن میں جنم لینے والی تھکن اور غنودگی کو چنداں اہمیت نہیں دیتے۔ حالانکہ نیند نہ لینا اب امراض قلب اور ذیابیطس جیسی ا ہم بیماری بن چکی۔
نیند کی کمی سے کئی نفسیاتی و جسمانی عوارض جنم لیتے ہیں۔ مثلاً انسان بے صبرا ہوجاتا اور ناگوار خاطر معمولی سی بات پر بھڑک اٹھتا ہے۔ اس میں قوت برداشت کم ہوجاتی ہے اور وہ کام پر صحیح طرح توجہ نہیں دے پاتا۔امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا میں خصوصاً لاکھوں طالب علم نیند کی کمی میں مبتلا ہوچکے۔ چناں چہ وہ اکثر جماعتوں میں اونگھتے پائے جاتے ہیں۔ راتیں وہ کمپیوٹر یا موبائل فون کے سامنے گزارتے ہیں جبکہ دن میں پڑھائی نہیں کرپاتے۔ اسی لیے درج بالا ممالک کی حکومتیں صبح کے وقت تعلیمی اداروں کا ٹائم بڑھانے پر غور کررہی ہیں تاکہ بچے و نوجوان مزید عرصہ نیند لے سکیں۔
پچھلے ایک عشرے سے ماہرین طب متوحش تھے کہ نیند کی کمی بنی نوع انسان کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اب اس نئی تحقیق نے ان کی تشویش بڑھادی کہ نیند وہ واحد وقت ہے جب ہمارا دماغ سکون کا سانس لیتا اور آرام کرتا ہے۔ اگر اسے آرام و سکون کا یہ وقت بھی نہ ملے، تو دماغ کی حیاتیاتی شکست و ریخت سے ہمارا نفسیاتی و جسمانی نظام بھی رفتہ رفتہ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ فاسد اور زہریلے مادے ہمیں بیماریوں میں مبتلا کرکے موت کے منہ میں پہنچا دیتے ہیں۔
امریکہ میں کئی سائنس داں دماغی خلیوں پر تحقیق کررہے ہیں۔ انہوں نے جانا کہ جب ان خلیوں کو آرام کے لمحات نہ ملیں تو مسلسل کام کرنے سے وہ شدید تھکن کا شکار ہوجاتے ہیںجیسے ڈبل شفٹ کرنے والا انسان نڈھال رہتا ہے۔خطرناک بات یہ کہ دماغی خلیے مسلسل کام کرتے رہیں اور انہیں آرام کا وقفہ نہ ملے، تو آخر کار وہ آزاد اصیلے (Free radicals) خارج کرنے لگتے ہیں۔ آزاد اصیلے ’’تکسید‘‘ (Oxidation) کی وجہ سے خراب ہونے والے خلیے ہیں جو جسم انسانی میں تندرست خلیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ اگر بدن میں آزاد اصیلوں کی تعداد بڑھ جائے، تو انسان کسی نہ کسی مرض کا شکار ہوجاتا ہے۔دوسری طرف دماغی خلیوں کو نیند کے ذریعے آرام ملے، تو وہ ضد تکسیدی (Antioxidant) کیمیکل بناتے ہیں۔ یہ انسان دوست کیمیائی مادے ہمارے جسم کو آزاد اصیلوں اور دیگر زہریلے کیمیکلز سے پاک کرتے ہیں۔
نیند کی کمی عام رجحان بن جائے، تو اس کا ایک بڑا نقصان بھی ہے۔ وہ یہ کہ جب کوئی دماغی خلیہ یا نیورون کام کا بوجھ برداشت نہ کرسکے، تو وہ چل بستا ہے۔ یہ نہایت خطرناک امر ہے کیونکہ دیگر جسمانی خلیوں کے برعکس دماغ میں نئے خلیے جنم نہیں لیتے۔ ایک بالغ دماغ میں جتنے خلیے ہوں، ساری عمر اتنے ہی رہتے ہیں۔ مگر نیند کی کمی ایسا خطرناک عمل ہے کہ وہ دماغ کے خلیے بھی مار کر انسان کو دماغی طور پر کمزور بنا ڈالتا ہے۔ مثلاً اس کی یادداشت متاثر ہوتی ہے اور وہ کسی بات پر باآسانی توجہ نہیں دے پاتا۔
سائنس دانوں نے بوڑھوں کے دماغ پر تحقیق کرنے سے دریافت کیا ہے کہ ان کے دماغی خلیے فاسد فضلہ پہلے کی طرح عمدگی سے صاف نہیں کرپاتے۔ اسی لیے اُن کا دماغ  پہلے کی طرح ذہنی طور پر چاق و چوبند نہیں رہتا۔لیکن جب 20 سالہ لڑکا یا لڑکی بھی مناسب نیند نہ لے، راتیں کمپیوٹر، ٹی وی یا موبائل کے سامنے گزارے، تو ان کے دماغی خلیے بھی بوڑھوں کے دماغی خلیوں سے ملتا جلتا طرز عمل دکھاتے ہیں یعنی دماغ سے زہریلے کیمیائی مادے صاف نہیں کرپاتے۔ چنانچہ نیند کی کمی کے شکار لڑکے لڑکیوں کا دماغ بھی بوڑھوں کی مانند ہوجاتا ہے۔