نونہالان ملت کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم سے آراستہ کرنا بے حد ضروری

حیدرآباد ۔ 26 ۔ دسمبر : ( سیاست نیوز ) : دنیا میں ترقی کامیابی و کامرانی کے لیے مسلمان لڑکے لڑکیوں کا دینی و عصری تعلیم سے آراستہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ خاص کر دختران ملت کا تعلیم یافتہ ہونا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ ماں کی گود اولاد کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے اس طرح ماں ایک معلمہ ایک رہبر و رہنما کی حیثیت سے اپنے بچوں کو اخلاق کردار کے زیور سے آراستہ کرنے ان میں اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کرتی ہے ۔

غرض تعلیم یافتہ لڑکیاں مہذب معاشرہ کی علامت ہوتی ہیں تاہم دینی تعلیم کے بناء عصری تعلیم ہلاکت خیز ثابت ہوتی ہے اور ہورہی ہے ایسے میں بیٹیوں اور بیٹوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دلانا از حد ضروری ہے ۔ اس پر فتن و پر آشوب دور میں ہم تعلیم کے ذریعہ ہی نانصافی ، ظلم و بربریت ، تعصب و جانبداری اور فرقہ پرستی کا مقابلہ کرسکتے ہیں ۔ اچھی بات یہ ہے کہ حیدرآباد میں مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے کے لیے بہت کام ہورہا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں نے جامعہ عائشہ نسواں داراب جنگ کالونی مادنا پیٹ کی تیسری منزل کی تکمیل اور افتتاح کے موقع پر منعقدہ جلسہ سے اپنے خصوصی خطاب میں کیا ۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی زیر سرپرستی اور ناظم مدرسہ حافظ محمد خواجہ نذیر الدین سبیلی کی نگرانی میں چلائے جانے والے اس عظیم الشان مدرسہ میں 1600 طالبات علم دین حاصل کررہی ہیں جہاں انہیں علم دین کے ساتھ ساتھ انگریزی ، سائنس ، ریاضی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے ۔ ریاست بلکہ سارے ملک میں اپنی طرز کے اس منفرد دینی مدرسہ کی 32 شاخیں سارے ملک میں کام کررہی ہیں ۔ اس طرح جامعہ عائشہ نسواں اور اس کی شاخوں میں تعلیم حاصل کررہی طالبات کی تعداد 7000 سے متجاوز ہوچکی ہے ۔ جناب زاہد علی خاں نے اپنا سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہیں اس مدرسہ میں طالبات کی کثیر تعداد کے تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں جان کر بہت مسرت ہوئی ہے اور ان کی مسرت اس وقت دوبالا ہوگئی جب انہیں بتایا گیا کہ طالبات کو عصری علوم سے بھی آراستہ کیا جارہا ہے ۔ ایڈیٹر سیاست نے کہا کہ مسلمانوں کو 4 فیصد تحفظات کی ضرورت نہیں بلکہ ہمیں ہماری آبادی کے لحاظ سے تحفظات فراہم کئے جانے چاہئے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جامعہ عائشہ نسواں کے بارے میں یہ جان کر بھی خوشی ہوئی کہ یہ مدرسہ شہریان حیدرآباد کے تعاون سے چلایا جاتا ہے ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ اس مدرسہ کی راست مالی مدد کررہا ہے ۔

اسباب خود بخود پیدا ہورہے ہیں نتیجہ میں تین منزلہ عمارت ہمارے سامنے ہے ۔ جلسہ کا آغاز طالبہ حافظہ شائستہ خاتون کی قرات کلام پاک سے ہوا ۔ جب کہ طالبہ عائشہ خانم اور امتہ المحیط سعدیہ نے بالترتیب اردو اور انگریزی میں آیات قرآنی کا ترجمہ پیش کیا ۔ شعبہ حفظ کی ایک اور طالبہ رفیعہ بیگم نے نعت شریف پیش کی جب کہ طالبہ شاذیہ پروین نے علامہ اقبال کی نظم سنائی اور عظیمہ بیگم نے پر اثر تقریر کی ۔ جناب زاہد علی خاں نے بتایا کہ قومی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں بھی جب مختلف وزرائے اعلیٰ یہ کہہ رہے تھے کہ ان لوگوں نے مسلمانوں کی بہبود کے لیے کئی اسکیمات شروع کئے تب انہوں نے پر زور انداز میں کہا کہ مسلمانوں کو لبھانے یا خوش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ مسلمانوں کو ان کا حق دیجئے ۔ ایڈیٹر سیاست نے یہ بھی کہا کہ آج ہماری لڑکیاں لڑکوں سے اچھا پڑھ رہی ہیں ۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سیاست کی جانب سے مسلم طلباء و طالبات کے لیے داخل کی جانے والی اسکالر شپس درخواستوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ سیاست نے 1.5 لاکھ مسلم طلبہ کی اسکالر شپس درخواستیں داخل کی ہیں ان میں 50 فیصد درخواستیں لڑکیوں کی تھیں ۔ دینی مدارس کے انتظامیہ پر عصری تعلیم پر توجہ دینے پر زور دیتے ہوئے جناب زاہد علی خاں نے مدرسہ عائشہ نسواں میں سیاست ملی فنڈ سے طالبات کے لیے کمپیوٹر لیاب قائم کرنے کا اعلان کیا ۔ جس پر شرکاء محفل نے انہیں اور سیاست کے حق میں دعائیں کیں ۔ ایڈیٹر سیاست نے یہ بھی کہا مسلمانوں کو ایک وقت کا کھانا چھوڑنا بھی پڑے تو چھوڑ دے لیکن اپنے گھروں میں کمپیوٹر ضرور رکھے کیوں کہ موجودہ مسابقتی دور میں بچوں کا انفارمیشن ٹکنالوجی سے واقف ہونا بہت ضروری ہے تاہم کمپیوٹر کے بھی دو رخ ہیں اچھا اور برا اس کے لیے نگرانی اہم عنصر ہے ۔

ایڈیٹر سیاست نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ وہ سرکاری اسکیمات سے بھر پور استفادہ کریں کیوں کہ یہ ہمارا ہی پیسہ ہے ۔ ایڈرائٹ کنسٹرکشن دوبئی کے صدر نشین جناب خدا داد خان صاحب کے مالی تعاون سے مدرسہ کی تیسری منزل کی تعمیر مکمل ہوئی جس میں اپیس انٹرئیر اینڈ ایکسٹرئیر انجینئرس اینڈ کنٹراکٹرس کے میر محمد علی ہاشمی آرکیٹیکٹ کا اہم رول رہا ۔ 27 لاکھ روپئے کی لاگت سے تیسری منزل کی تعمیر مکمل ہوئی ۔ اس ضمن میں جناب امانت خاں جنرل سکریٹری عنایت ویلفیر اینڈ ایجوکیشنل ٹرسٹ ہمناآباد بیدر کی بھی ستائش کی گئی ۔ ناظم مدرسہ حافظ محمد خواجہ نذیر الدین سبیلی نے اپنے خطاب میں جناب خدا داد خاں اور جناب زاہد علی خاں کی ملی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخصیتیں ملت کی جس انداز میں خدمت کررہے ہیں انشاء اللہ ، اللہ تعالی انہیں اس کا اجر و ثواب عطا فرمائیں گے ۔ مولانا نے بتایا کہ 20 اگست 1986 میں اس مدرسہ کو ایک کمرہ میں جب قائم کیا گیا تھا اس وقت صرف 7 طالبات تھیں اور آج اللہ کے فضل و کرم سے 1800 گز پر مشتمل اس تین منزلہ مدرسہ میں 1600 طالبات علم دین حاصل کررہی ہیں ۔ جن میں نہ صرف آندھرا پردیش بلکہ ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والی طالبات شامل ہیں ۔ کرناٹک ، بہار ، اترپردیش اور بنگال میں اس کی شاخیں کام کررہی ہیں جب کہ یہاں کی فارغ التحصیل طالبات امریکہ ، جاپان ، دوبئی وغیرہ میں مدارس چلا رہی ہیں ۔ کشمیری بھی اس مدرسہ کی شاخ قائم ہونے والی ہے ۔

انہوں نے جناب زاہد علی خاں کی اس تجویز سے بھی اتفاق کیا کہ انگریزی کی طرح طالبات کو تلگو کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے ۔ ناظم مدرسہ کے خطاب کے بعد کمسن نعت خواں میر مطہر علی ہاشمی نے نعت شریف پیش کی ۔ اور پھر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے انتہائی معلوماتی خطاب کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی تنگیوں سے وسعت کی طرف لاتے ہیں اور ام المومنین حضرت بی بی عائشہؓ کے نام مبارک سے قائم اس مدرسہ نے تنگی سے سفر شروع کیا اور اللہ تعالی نے قدم قدم پر اس میں وسعت پیدا کی ۔ انہوں نے جناب خدا داد خاں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مدرسہ میں جو تعمیر کروائی ہے مدرسہ اور اس سے استفادہ کرنے والی طالبات کے رہنے تک انہیں اس کا اجر ملتا رہے گا ۔ واضح رہے کہ مدرسہ کے اس نو تعمیر شدہ منزل کو خدا داد خاں صاحب کی اہلیہ محترمہ فاطمہ سے موسوم کیا گیا ہے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند ، جامعہ نظامیہ حیدرآباد اور دیگر دینی مدارس کا قیام دراصل مسلمانوں کی شناخت کے لیے عمل میں آیا اور ہمیشہ دینی مدارس نے خود کو حکومتوں کے اثر سے بچائے رکھا ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں اسلامی علوم حکومتوں کے اثر سے آزاد ہیں ۔ مولانا نے روزنامہ سیاست اور ایڈیٹر سیاست کی ملی و صحافتی خدمات کی زبردست ستائش کی اور کہا کہ سیاست صرف اخبار ہی نہیں بلکہ لسانی و ملی تحریک ہے ۔ سیاست مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی ، مسلم نوجوان نسل کی تعلیم ، ملازمتوں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ ، مسلم معاشرہ کو بے جا رسومات و سماجی لعنتوں سے بچانے اور زندگی کے ہر شعبہ میں مسلم اقلیت کو اونچا اٹھانے کے لیے کام کررہا ہے ۔

انہوں نے جناب زاہد علی خاں کی خدمات کو بھر پور خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں یہ بھی دعا کی کہ اللہ تعالی ایڈیٹر سیاست کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے پر زور انداز میں یہ بھی کہا کہ ملک کا تعلیمی نظام ناقص ہے ۔ اس سے اخلاقی اقدار کو نکالدیا گیا ہے اور ایسا نظام تعلیم پیش کیا گیا جس نے رشوت خوری اور بدعنوانی کو فروغ دیا ہے ۔ چنانچہ جرائم بالخصوص کرپشن میں تعلیم یافتہ افراد ہی زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں ۔ انہوں نے مدرسہ کی ترقی کے لیے دعا بھی کی ۔ مولانا محمد عارف باللہ القاسمی نے جلسہ کی کارروائی چلائی اور میر مقبول علی ہاشمی نے شکریہ ادا کیا ۔۔