نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر

تکمیل جو ہوجائے کبھی شرطِ وفا کی
کیا ہم کو وفا کا کوئی انعام ملے گا
نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر
ملک میں زندگی کے تقریبا ہر شعبہ میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں اور ا ن کا راست اثر ملک کے نوجوانوں کے مستقبل پر ہورہا ہے ۔ حکومت کی جانب سے حالات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے حالات مزید بگڑنے کا موقع فراہم کیا جا رہا ہے ۔ آج سارے ملک میں بے چینی اور عدم اطمینانی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں حالات ابتر نہیں ہو رہے ہیں۔ کہیں نوجوانوں کو مذہب کے نام پر فرقہ پرستی کی آگ میں جھونکا جا رہا ہے اور انہیں ایک دوسرے سے محبت کرنے کی بجائے نفرت کرنے کیلئے اکسایا جا رہا ہے ۔ کسی گوشے سے کسی فرقے کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے ۔اس طرح کی مہم میں بھی نوجوانوں ہی کو جھونکا جا رہا ہے ۔ کسی سیاسی لیڈر کی جانب سے کسی مذہب کے خلاف ایسے ریمارکس کئے جار ہے ہیں جن کی وجہ سے دو فرقوں میں یکجہتی پیدا ہونے کی بجائے منافرت کا ماحول پیدا ہو رہا ہے ۔ کہیں نوجوانوں کو روزگار دستیاب نہیں ہے ۔ سالانہ دو کروڑ ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والی حکومت اس وعدہ کو یکسر فراموش کرچکی ہے ۔ اب جبکہ ملک میں انتخابات کا ماحول پیدا ہو رہا ہے تو نوجوانوں کو راغب کرنے کیلئے کچھ ملازمتوں کی فراہمی کا دعوی کیا جا رہا ہے جو حقائق سے بعید ہے ۔ ایسے ماحول میں ایک اور سنگین مسئلہ سی بی ایس ای کے پرچہ جات کے افشاء سے پیدا ہوا ہے ۔ جو نوجوان طلبا و طالبات رات دن محنت کرتے ہوئے امتحان کی تیاری کرچکے تھے ان کے مستقبل سے پرچہ کے افشا کے ذریعہ کھلواڑ کیا گیا ہے ۔ حکومت اس پر بھی کوئی کارروائی کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی ۔ وہ ہر مسئلہ کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ یا عذر پیش کرتے ہوئے خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کر رہی ہے ۔ اس سے حکومت کی بے حسی اور لاپرواہی کا پتہ چلتا ہے ۔حکومت کا ذمہ اور فریضہ ہے کہ وہ ملک کا مستقبل بننے والے نوجوانوں کو ہر طرح کی سہولت فراہم کرے اور ان کی تعلیم اور معاشرتی تحفظ کیلئے اقدامات کرے لیکن موجودہ مرکزی حکومت اس سلسلہ میںکچھ بھی کرنے سے قاصر ہے اور وہ صرف منافرت پھیلانے والوں کی سرپرستی کرنے میں مصروف دکھائی دیتی ہے جس سے ملک کے نوجوانوں کا مستقبل داؤ پر لگ رہا ہے ۔
مذہبی تقاریب اور تہواروں کے موقع پر جلوسوں کے ذریعہ فرقہ پرستی کا زہر گھولا جا رہا ہے ۔ ایک فرقہ کو دوسرے کے خلاف اکسایا جا رہا ہے ۔ منافرت پھیلائی جا رہی ہے ۔ سماج میںدوریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ یہ ایسا ماحول ہے جس سے نوجوان ترقی کی کرنے کی بجائے اور تعلیم حاصل کرکے اپنا اور ملک کا مستقبل بنانے کی بجائے پست ذہنیت کا شکار ہوجائیں گے اور یہ کسی اور کا نہیں بلکہ سارے ہندوستان کا نقصان ہے ۔ یہ ہمارے ملک کو آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے ڈھکیلنے والے عوامل ہیں۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو نریندر مودی کی قیادت والی مرکزی حکومت یا تو سمجھ نہیں رہی ہے یا پھر سمجھ کر بھی انجان بن رہی ہے ۔ یہ حکومت کے فریضہ سے مجرمانہ تغافل ہے اور اس سے ملک و قوم کی ترقی متاثر ہوکر رہ جائیگی ۔ رام نومی کا تہوار ہو یا ہنومان جینتی کا تہوار یا پھر کوئی اور تہوار ہو نوجوانوں کو اکسایا اور بھڑکایا جا رہا ہے ۔ انہیں فرقہ وارانہ تشدد کا راستہ دکھایا جا رہا ہے ۔ انہیں ملک کا ایک پابند قانون اور سلجھا ہوا شہری بننے کی ترغیب دینے کی بجائے نفرتوں کا شکار بنایا جا رہا ہے ۔ ان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اب طلبا کا مستقبل بھی محفوظ نہیں رہ گیا ہے اور ان کے امتحانی پرچوں کا افشا ہونے لگا ہے ۔ اس سب کے باوجود حکومت حرکت میں آنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی ۔ وہ اپنی ہی دنیا میں مگن ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ عام حالات کو بہتر بنانے کی بجائے ایک مخصوص ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے ۔ حکومت کی یہ بے حسی اس کے دستوری فرائض کے مغائر ہے ۔
نوجوان کسی بھی ملک اور قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ وہ مستقبل کے معمار اور لیڈر ہوتے ہیں۔ اگر انہیں نوجوانی میں ہی غلط راستوں پر ڈال دیا گیا تو اس سے نہ صرف ان کا بلکہ سارے ملک کا مستقبل داؤ پر لگ جائیگا ۔ اس کی وجہ سے قوم کی ترقی متاثر ہونے لگی ہے ۔ ملک میں صنعتی پیداوار کم ہوگئی ہے ‘ ملازمتوں اور روزگار کے مواقع ناپید ہوگئے ہیں۔ بیروزگاری کی شرح بڑھنے لگی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں میں بے راہ روی کے واقعات میںاضافہ ہونے لگا ہے ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے ترجیحات کا از سر نو تعین کرے ۔ ملک میں منافرت اور فرقہ واریت کے ماحول کا سدباب کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ سماج میں دوریوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ۔ طلبا اور نوجوانوں کے مستقبل کو بگاڑنے کی بجائے اسے سنوارنے کی منصوبہ بندی کی جائے تاکہ ملک و قوم کو حقیقی معنوں میں ترقی دلائی جاسکے اور قوم خوشحال بن سکے ۔