نواز شریف کا مستقبل غیر یقینی

آئندہ کیا ہوگا ہے اس کا حال پر ہی انحصار
جاننا ہے حشر گر خود احتسابی کیجیئے
نواز شریف کا مستقبل غیر یقینی
سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کا سیاسی مستقبل تقریبا غیر یقینی ہوگیا ہے ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کی سرگرم سیاست میں ان کی واپسی یا کسی دستوری عہدہ پر ان کا فائز ہونا اب تقریبا نا ممکن ہوگیا ہے ۔ پاکستان سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں 28 جولائی کو کئے گئے فیصلے میں نااہل قرار دیدیا گیا تھا جس کے بعد انہیں وزارت عظمی سے سبکدوشی اختیار کرنی پڑی تھی ۔ نواز شریف ‘ ان کے فزندان ‘ دختر اور داماد کے علاوہ سیاسی رفیق سابق وزیر فینانس اسحاق ڈار نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ۔ یہ درخواست نظر ثانی بھی اسی بنچ تک پہونچی جس نے انہیں نا اہل قرار دیا تھا ۔ اس طرح ان درخواستوں کا بھی وہی حشر ہونا تھا جو پہلے ہوا تھا اور اب بنچ نے وہی فیصلہ جاری کردیا ہے ۔ بنچ نے نواز شریف یا ان کے افراد خاندان کے وکیل کی جانب سے پیش کی گئی کسی بھی دلیل کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی رولنگ جاری کردی ہے ۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد نواز شریف کی سیاسی اعتبار سے پاکستانی سیاست میں واپسی تقریبا نا ممکن ہوگئی ہے ۔ ان کی جو درخواست نظرثانی تھی اسے خود سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے مسترد کردیا ہے ۔ اس طرح اب ان کے پاس کوئی اور قانونی راستہ نہیں رہ گیا ہے کہ اپنی نا اہلی کو چیلنج کرسکیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کئے گئے فیصلے پر کسی اور عدالت کو نظرثانی کا اختیار نہیں رہ جاتا ۔ اب نواز شریف کے تمام قانونی امکانات تو ختم ہوگئے ہیںاور بچا ہوا صرف ایک امکان ہے جو سیاسی اور انتظامی ہے اور اس کے پورا ہونے کے کم از کم اب کوئی امکانات نظر نہیں آتے ۔ یہ راستہ ہے کہ دستور میں ترمیم کا ۔ یہ ترمیم اسی وقت ہوسکتی ہے جب نواز شریف کی جماعت کو پاکستان میں آئندہ سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں نہ صرف حکومت دوبارہ مل جائے بلکہ اس کو دو تہائی اکثریت حاصل ہوجائے تاکہ دستور میں ترمیم کی جاسکے ۔ پاکستان کے جو موجودہ سیاسی حالات اور پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کی جو صورتحال ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں دستور میں ترمیم کی حد تک کامیابی ملنا ممکن نظر نہیں آتا ۔ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ نواز شریف نے قانونی امکانات کو عملا ختم کرنے میں خود جلد بازی کی ہے ۔
پاکستان سپریم کورٹ نے نہ صرف نواز شریف بلکہ ان کے افراد خاندان کو بھی اس معاملہ میں عملا بے کار کردیا تھا اور انہیں بھی نا اہل قرار دیدیا گیا تھا ۔ اس سارے خاندان میں صرف نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز بچی ہوئی تھیں جو قانون کے عتاب کا شکار نہیں ہوئی تھیں۔ اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف نے انہیں لاہور میں اپنے حلقہ انتخاب سے امیدوار بنایا ہے حالانکہ کلثوم نواز اس حالت میں نہیں ہیں کہ وہ انتخابات میں مقابلہ کرسکیں یا اگر وہ جیت جاتی ہیں تو اپنے انتخاب سے انصاف ہی کرسکیں۔ وہ اپنے شوہر کے حلقے سے امیدوار تو بنادی گئی ہیں لیکن وہ خود پاکستان میں نہیں ہیں۔ وہ کینسر کے عارضہ کا شکار ہیں اور لندن میں ان کا علاج چل رہا ہے ۔ لاہور میں ان کی انتخابی مہم کی ذمہ داری ان کی دختر کو سونپی گئی ہے اور وہ اس ذمہ داری کو نبھارہی ہیں۔ چاہے کلثوم نواز یہاں سے مقابلہ جیت بھی جائیں لیکن اس کو نواز شریف یا ان کے خاندان کی کامیابی قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ عملی طور پر وہ بھلے ہی سب کچھ رہیں لیکن قانونی اور دستوری طور پر آن ریکارڈ ان کا کوئی رول شمار نہیں ہوسکتا ۔ اب نواز شریف اور ان کے فرزندان ‘ دختر اور داماد کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی درج ہو رہے ہیں اور ان مقدمات میں کیا فیصلے ہوسکتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتاسکتا ہے لیکن یہ اندیشے بے بنیاد نہیں ہوسکتے کہ ان مقدمات میں بھی نواز شریف اور ان کے افراد خاندان کو سزا ہوسکتی ہے ۔ ان کے خلاف درج کئے جانے والے چار میں سے ایک بھی مقدمہ میں اگر انہیں سزا ہوتی ہے تو ان کی واپسی کا سفر اور مشکل ہوجائیگا ۔
جہاں قانونی پیچیدگیاں ان کا پیچھا کرینگی وہیں اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کے صدر عمران خان کی جانب سے ان کے خلاف جو مہم شروع کی گئی ہے وہ بھی جاری رہے گی ۔ اس کے علاوہ اس تحریک کے عوام پر اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ جو تائید نواز شریف کو پہلے حاصل تھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اتنی ہی عوامی تائید انہیں آج بھی حاصل ہے ۔ خاص طور پر پی ٹی آئی کی مہم کے نتیجہ میں ان کے سیاسی امکانات پر یقینی طور پر منفی اثر مرتب ہوسکتا ہے ۔ ایسے میں یہ کہنا بیجا نہیں ہوسکتا کہ نواز شریف کا سیاسی سفر پاکستان میں تقریبا ختم ہورہا ہے اور ان کی واپسی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہی رہ گئے ہیں۔