نماز کا طریقہ اور اُس کے کچھ مسائل

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس)

نماز کے شروع میں ثناء پڑھی جاتی ہے، اس کے بعد سورہ فاتحہ اور پھر قرآن مجید کی کوئی سورت یا سورت کا کوئی حصہ۔ مقتدی تمام نمازوں میں جو کچھ پڑھنا ہوتا ہے زیر لب پڑھتے ہیں، البتہ امام فجر، مغرب اور عشاء کے علاوہ نماز جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں سورۂ فاتحہ اور قرآنی سورہ کی قراء ت بالجہر کرتا ہے۔

حالت قیام میں قرآن مجید کی سورہ کی تلاوت کے بعد اللّٰہ اکبر کہہ کر ہاتھ گھٹنوں پر رکھ کر جھک جاتے ہیں۔ یہ حالت رکوع کہلاتی ہے۔ اس دوران کم از کم تین بار ’’سبحان ربی العظیم‘‘ پڑھا جاتا ہے، اس کے بعد کھڑے ہوکر کہا جاتا ہے ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ ربنا لک الحمد‘‘۔ اگر نماز باجماعت ہے تو امام بلند آواز کے ساتھ کہتا ہے ’’سمع اللّٰہ لمن حمدہ‘‘ جب کہ مقتدی صرف ’’ربنا لک الحمد‘‘۔ اس حالت قیام میں ہاتھ دونوں پہلوؤں کے ساتھ کھلے چھوڑ دیئے جاتے ہیں، پھر اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدے میں چلے جاتے ہیں۔ سجدے میں گھٹنے موڑکر پیشانی، ناک اور ہتھیلیاں جائے نماز پر نرمی کے ساتھ ٹکا دی جاتی ہیں۔ سجدے کی حالت میں کم از کم تین بار ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ اس کے بعد نمازی اس انداز میں بیٹھتا ہے کہ اس کا وزن بائیں پاؤں پر آجاتا ہے، جب کہ دائیں پاؤں کو وہ سیدھا کھڑا کرلیتا ہے، جس میں پنجے زمین کے ساتھ پیوست اور ایڑی اوپر اوٹھی ہوتی ہے۔ اس کیفیت میں جو جلسہ کہلاتی ہے، وہ اللہ سے مغفرت کی دعاء کرتا ہے۔ اس کے بعد وہ پھر سجدے میں چلا جاتا ہے اور وہی کلمہ دہراتا ہے، جو پہلے سجدے میں کہے تھے اور پھر اللہ اکبر کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس سارے عمل کو ایک رکعت کہتے ہیں۔

دوسری رکعت کا آغاز سورہ فاتحہ سے کیا جاتا ہے اور اس کے بعد کوئی قرآنی آیت پڑھی جاتی ہے۔ اس رکعت میں ثناء نہیں پڑھی جاتی۔ اس کے بعد پھر رکوع، قیام اور سجود، مگر اس میں دوسرے سجدہ کے بعد کھڑے ہونے کی بجائے ’’جلسہ‘‘ کی پوزیشن میں بیٹھے رہتے ہیں اور اس کے بعد ’’جلسہ تشہد‘‘ کے دوران التحیات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتے ہیں۔

چوں کہ نماز فجر، جمعہ اور عیدین کی نمازیں دو رکعت پر مشتمل ہوتی ہیں، اس لئے درود کے بعد ایک دعاء اللہ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور پھر نماز کا اختتام ہو جاتا ہے اور اختتام کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے دائیں طرف منہ موڑکر کہا جاتا ہے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ اور پھر بھائیں طرف منہ موڑکر یہی کلمے دہرائے جاتے ہیں۔ اور اگر نماز دو سے زیادہ رکعتوں پر مشتمل ہو تو پھر التحیات کے بعد اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پہلی رکعتوں کی طرح ہاتھ باندھ کر سورہ فاتحہ پڑھ کر (کوئی اور قرآنی آیت پڑھے بغیر) رکوع میں چلے جاتے ہیں اور پھر سیدھے کھڑے ہوکر دو سجدوں کے بعد اگر نماز مغرب ہو تو تیسری رکعت میں ’’جلسہ‘‘ کرکے نماز حسب دستور ختم کردیتے ہیں اور اگر چوتھی رکعت بھی پڑھنا مطلوب ہے تو پھر تیسری رکعت مکمل کرکے دوسرے سجدہ کے بعد چوتھی رکعت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اسے بھی تیسری رکعت کے انداز میں مکمل کرتے ہیں اور آخر میں سلام پھیرکر نماز کردیتے ہیں۔

اگر کوئی نماز میں بول پڑے، ہوا خارج ہو جائے، قہقہہ ماکر ہنس دے یا کوئی چیز کھا پی لے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس صورت میں نماز نئے سرے سے ادا کی جائے اور اگر نماز ہوا خارج ہونے سے فاسد ہوئی ہو تو نیا وضوء بھی ضروری ہے، تاہم نماز کی ادائیگی کے دوران کوئی رکن یا نماز کا کوئی حصہ ادا کرنا بھول جائیں تو نماز کی دوبارہ ادائیگی ضروری نہیں، بلکہ نماز معمول کے مطابق مکمل کرکے التحیات کے بعد دو سجدے کرے اور باقی نماز مکمل کرے۔ بھول کی تلافی کے ان سجدوں (سجدۂ سہو) میں معمول کی دعاء ’’سبحان ربی الاعلی‘‘ پڑھی جاتی ہے۔

اگر کوئی نمازی تاخیر سے مسجد میں آئے اور باجماعت نماز شروع ہو چکی ہو اور وہ اس بات سے بے خبر ہو کہ کتنی رکعتیں پڑھی جاچکی ہیں تو اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بلکہ وہ جماعت میں شامل ہوکر امام کی اقتداء میں باقی نماز ادا کرے اور اگر ایک یا زیادہ رکعتیں ادا ہونے سے رہ جائیں تو امام کے سلام پھیرنے کے بعد اٹھ کر مکمل کرلے۔ فرض کیا وہ نماز مغرب میں دوسری رکعت کے سجدے کے دوران نماز میں شامل ہوا تو گویا اس نے امام کے ہمراہ صرف ایک رکعت ادا کی، اس لئے اسے بعد میں دو رکعتیں مزید ادا کرنا ہوں گی، اس طرح کہ وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوکر ایک رکعت ادا کرے اور پھر پہلے التحیات کے لئے بیٹھ جائے اور پھر کھڑا ہوکر دوسری رکعت پڑھے اور التحیات کے بعد دوسری رکعت مکمل کرکے سلام پھیردے۔ اگر نماز میں اس وقت شامل ہوں، جب امام حالت رکوع میں ہو اور رکوع کے کلمات مکمل ہو جائیں تو یہ پوری رکعت شمار ہو جائے گی، تاہم اگر نمازی اس وقت شامل ہو، جب امام رکوع سے قیام میں آجائے تو مکمل رکعت کی ادائیگی ضروری ہوگی، چاہے دونوں سجدے ادا بھی ہو جائیں۔

اگر نماز کا وقت کسی ایسے مقام پر آجائے، جہاں قبلہ رخ کا تعین ممکن نہ ہو تو قیاس کرلے، یعنی اندازے سے رخ متعین کرلے اور مکمل یقین کے ساتھ نماز ادا کرلی جائے۔ اللہ تعالی ہر جگہ موجود ہے۔ نماز مکمل یکسوئی کے ساتھ ادا کی جانی چاہئے۔ دوران قیام نظر اس مقام پر مرکوز ہونی چاہئے، جہاں پیشانی کو زمین پر رکھا جاتا ہے، یعنی جس مقام پر سجدہ کیا جانا ہے۔ رکوع کے دوران نظر پاؤں کے ناخنوں پر اور سجدہ کے دوران آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔ دوران نماز اِدھر اُدھر یا آسمان کی طرف دیکھنا منع ہے۔ نماز کے دوران مضبوطی سے ایک جگہ کھڑے رہنا چاہئے، آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہلنا جلنا نہیں چاہئے۔

نماز کے بعد اللہ تعالی سے اپنی جائز ضروریات اور خواہشات کی تکمیل کی دعاء کی جانی چاہئے اور وہی دعائیں سب سے بہتر ہیں، جو خود قرآن میں مذکور ہیں۔ چوں کہ نماز میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے، وہ عربی زبان میں ہوتا ہے، اس لئے اسے زبانی یاد کرنا پڑتا ہے۔ نماز کا آغاز سورہ فاتحہ سے ہوگا اور سورہ فاتحہ نماز کا لازمی حصہ ہے۔

اگر کوئی مسلمان اتنا علیل ہو جائے کہ بستر سے ہل جل نہ سکے تو جس طریقہ سے اسے سہولت ہو نماز پڑھ سکتا ہے۔ بیٹھ کر یا لیٹ کر۔ جب کہ لیٹے ہوئے نماز کی ادائیگی اس طرح کی جاتی ہے کہ ذہن میں قیام، رکوع، سجود اور باقی حالتوں کا محض تصور کرکے اور اس دوران نماز کے کلمات کا متعلقہ حصہ پڑھ کر نماز مکمل کی جاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوران سفر نماز کو قصر (چھوٹا کرکے) ادا کرنے کی اجازت دی ہے اور چار رکعت کی جگہ صرف دو رکعت پڑھ کر فرض ادا ہو جاتا ہے۔ (’’اسلام کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس)