نماز اور وضوء

ڈاکٹر محمد حمید اللہ (پیرس)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’صفائی نصف ایمان ہے‘‘ اس لئے نماز کی تیاری جسم کی صفائی سے شروع ہوتی ہے۔ عام طورپر نمازوں کے لئے وضوء ہی کافی ہے، تاہم بعض دوسری صورتوں میں غسل واجب ہے، یعنی جب میاں بیوی ہمبستری کریں یا مردو کو سوتے وقت احتلام ہو جائے (برے خواب سے پاجامہ گیلا ہو جائے)، عورتیں جب ایام (ماہواری) سے فارغ ہوں اور جب بچے کی پیدائش کے بعد مقررہ ایام گزر جائیں۔ جمعہ کی نماز کے لئے نہاکر مسجد میں جانے کی زوردار تاکید کی گئی ہے۔

غسل کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وضوء کیا جائے اور پھر پورے جسم پر سر سے پاؤں تک کم از کم تین بار پانی بہایا جائے۔ غسل کے لئے شاور موزوں ترین ہے، تاہم اگر شاور میسر نہ ہو تو ٹب سے نہانے کے بعد سر اور کندھے پر صاف پانی کا ایک جگ ضرور انڈیل لیا جائے۔

وضوء کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے بسم اللہ پڑھ کر وضوء کی نیت کریں اور دونوں ہاتھ کلائیوں تک دھوئیں، اس کے بعد منہ میں پانی ڈال کر انگلی کے ذریعہ منہ اندر سے صاف کرکے کلی کریں۔ پھر چلو میں پانی لے کر اس میں ناک ڈبوئیں اور اندر انگلی سے دونوں نتھنے صاف کریں۔ اس کے بعد چہرہ کو ماتھے سے لے کر ٹھوڑی تک اور دونوں کانوں تک دھوئیں۔ اس کے بعد بازو کہنیوں سمیت دھوئیں اور پھر مسح کریں۔ مسح کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو نئے پانی سے گیلا کریں اور سامنے سے پیچھے کی طرف انگلیاں بالوں پر پھیرتے ہوئے لے جائیں اور دونوں کانوں کے سوراخوں میں گیلی انگلیاں ڈالر کر صاف کریں (بعض مسالک کے نزدیک گردن کا مسح بھی ضروری ہے) پھر پہلے دائیں اور پھر بائیں پاؤں ٹخنوں تک دھوئیں۔ ان میں سے ہر فعل تین تین بار کیا جاتا ہے (سوائے مسح کے جو ایک ہی بار کافی ہے) تاہم پانی ناکافی ہو تو ایک بار دھونا بھی کافی ہے۔

اگر پانی بالکل میسر نہ ہو تو تیمم کی اجازت ہے۔ ایسے مریضوں کو بھی جنھیں پانی چھونے سے نقصان کا اندیشہ ہو، تیمم کی اجازت ہے۔ تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی نیت کرکے بسم اللہ پڑھیں اور پاک مٹی کے اوپر ہاتھ پھیرکر چہرے پر پھیر لیں۔ پھر اسی طرح مٹی کے اوپر ہاتھ پھیرکر بائیں ہتھلی دائیں بازو پر اور دائیں ہتھیلی بائیں بازو پر پھیر لی جائے۔ پاک مٹی کے لئے کچے مکانوں کی دیواریں بھی استعمال ہوسکتی ہیں۔ تیمم اللہ تعالی کے حضور بندے کی عاجزی کے اظہار کی علامت ہے۔

ہر نماز کے لئے نیا وضوء اس صورت میں ضروری ہے، اگر پہلا وضوء اونگھ آجانے سے، جسم سے ہوا خارج ہونے، پیشا کرنے یا اعضائے تناسل سے کوئی مادہ خارج ہونے یا قے آجانے کی بناء پر ٹوٹ گیا ہو۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹائلٹ استعمال کرنے کے بعد پانی کا استعمال کرنا چاہئے اور صفائی کے لئے ٹائلٹ پیپر یا ٹشو کافی نہیں ہوتا۔

نماز کی ادائیگی کے لئے لباس اور جگہ کا پاک ہونا اور منہ قبلہ رخ ہونا ضروری ہے۔ آج سائنسی ایجادات کی بدولت قبلہ کا رخ متعین کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دنیا گول ہے، اس لئے کسی مقام اور کعبہ کے درمیان مختصر ترین فاصلہ تلاش کیا جانا چاہئے۔ نیو یارک کے رہنے والوں کے لئے ان کا رخ مشرق، جنوب، مشرق ہوگا تو الاسکا کے لئے جنوب مغرب ہوگا۔

روزانہ پانچ نمازیں فرض ہیں، تاہم ہر جمعہ کے روز نماز ظہر (کے وقت میں جمعہ کی نماز) جماعت کے ساتھ ادا کرنا لازمی ہے۔ دو سالانہ تہوار ہیں، ایک ماہ رمضان المبارک کے اختتام پر روزوں کی تکمیل پر اظہار تشکر کے لئے عید الفطر اور دوسرا حج کے موقع پر عید قربان۔ تمام نمازیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں، تاہم رکعتوں کی تعداد مختلف ہے، سوائے نماز جنازہ کے۔ دن کی پہلی نماز فجر ہے، جس کے دو (فرض) رکعتیں ہیں۔ اس کے بعد ظہر اور عصر کی بھی چار چار (فرض) رکعتیں ہیں۔ مغربی کی تین اور عشاء کی چار (فرض) رکعتیں ہیں۔ جمعہ اور عیدین کی دو دو رکعتیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز عشاء کے بعد تین رکعت وتر پڑھنے کی بھی سخت تاکید کی ہے۔

فرض نمازیں تو پانچ ہیں، تاہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپﷺ ہر نماز کے ساتھ فرضوں کے علاوہ کچھ مزید رکعتیں بھی ادا فرمایا کرتے تھے، جو سنت مؤکدہ کہلاتی ہیں اور ان کی ادائیگی کی بھی سخت تاکید فرمائی۔ اس معمول کے مطابق نماز فجر سے قبل دو رکعت، نماز ظہر سے قبل چار رکعت اور فرضوں کی ادائیگی کے بعد دو رکعت، نماز مغرب کے تین رکعت فرض کے بعد دو رکعت (نماز سنت) ادا فرمایا کرتے تھے۔ نماز عشاء کے بعد تین رکعت (وتر) بھی آپﷺ کا معمول تھا اور آپ نے اس کی تاکید بھی فرمائی۔ حنفی مسلک کے مطابق یہ تین وتر اکٹھے ادا کئے جاتے ہیں۔ ان نمازوں کے علاوہ نوافل کی تعداد مقرر نہیں اور ہر مسلمان اپنی سہولت کے مطابق جتنے نوافل چاہے ادا کرسکتا ہے۔ زیادہ نوافل زیادہ مستوجب جزا ہوں گے۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نفل تحیۃ المسجد کے طورپر ادا کرنا سنت نبویﷺ ہے۔

نماز کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے وضوء کیا جاتا ہے اور پھر نماز کی ادائیگی کے لئے مناسب جگہ کا انتخاب، جہاں کھڑے ہوکر نمازی اپنا منہ قبلہ رخ کرکے ہاتھ کانوں (کی لووں) تک اٹھاتا ہے اور پھر نیت کرتا ہے کہ ’’میں نیت کرتا ہوں فلاں نماز کی، جس کی رکعت اتنی ہیں، منہ طرف قبلہ کے (مثلاً نماز ظہر کی نیت اس طرح ہوگی چار رکعت فرض نماز ظہر منہ طرف قبلہ کے… اللہ اکبر)

جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتے وقت بھی انفرادی نیت کرلینی چاہئے۔ اس کے بعد اگر نماز جماعت کے ساتھ ہے تو امام بآواز بلند اللہ اکبر کہتا ہے، جب کہ مقتدی سرگوشی کے انداز میں اللہ اکبر کہتے ہیں۔ اور پھر ہاتھوں کو سیدھا نیچے گراکر اس طرح باندھیں کہ بایاں ہاتھ جسم کے ساتھ مس کر رہا ہو اور دایاں ہاتھ اس کے اوپر باندھ لیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اگر دو نمازی بھی ہوں تو اس میں سے ایک کو امام بن جانا چاہئے اور دوسرا مقتدی کی حیثیت سے اس سے چند انچ پیچھے کھڑا ہو جائے اور اگر تعداد تین یا زیادہ ہوں تو پھر مقتدیوں کو تعداد کے مطابق امام کے پیچھے ایک یا دو قطاریں بنالینی چاہئے۔ مقتدی بلند آواز سے کچھ نہ پڑھیں، بلکہ زیر لب پڑھیں اور امام کی حرکات و سکنات کی اقتدا کریں۔

اب نماز شروع ہو گئی ہے، اب نمازی نہ تو کسی سے بات کرے اور نہ ہی اِدھر اُدھر دیکھے، بلکہ اس کی نظر اس نکتہ پر مرکوز ہونی چاہئے، جہاں سجدہ میں اس کا سر جاکر ٹکے گا۔ ہر نئی حرکت یعنی رکوع، سجود اور سجدہ سے اٹھتے وقت اللہ اکبر کہا جاتا ہے۔ (باقی تسلسل آئندہ) (’’اسلام کیا ہے؟‘‘ سے اقتباس)