نفرت کے خلاف عوامی احتجاج

ملک بھر میں جو نفرت کا ماحول گرم کیا جا رہا ہے اور گائے کے نام پر جس طرح انسانی جانوں کا اتلاف کیا جا رہا ہے ‘ بے گناہ اور معصوم افراد کاقتل کیا جارہا ہے اس سے سارے ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہورہی ہے ۔ ملک کے صحیح الفکر افراد اور ملک کے مستقبل کے تعلق سے فکرمند حلقوں میں اس تعلق سے تشویش کی لہر پیدا ہوگئی تھی ۔ ہر گوشے سے اس کے خلاف رائے دی جا رہی تھی ۔ ایسے واقعات کی مذمت کی جا رہی تھی اور ان پر روک لگانے پر زور دیا جا رہا تھا ۔ تاہم حکومت پر ایسا لگتا ہے کہ اس ساری صورتحال کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے ۔ قومی میڈیا کی جانب سے بھی اس طرح کے واقعات کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی بجائے ان کا جواز پیش کرنے اور اس نفرت انگیز جرم میں شامل رہنے والوں کو بچانے کی تگ و دو زیادہ کی جا رہی تھی ۔ یہ سلسلہ اترپردیش میں دادری کے مقام سے شروع ہواتھا جو اب جھارکھنڈ تک آ پہونچا ہے ۔ ملک میں کئی مقامات پر اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں لیکن حکومت یا حکومت کا کوئی بھی نمائندہ اس پر منہ کھولنے کو تیار نہیں ہے ۔ جو بے چینی اور تشویش کی لہر پیدا ہوئی تھی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف پسند اور اصول پسند حلقے ایسی صورتحال میں گھٹن محسوس کر رہے تھے ۔ اس گھٹن کے نکلنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ لوگ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے میں بھی ایک طرح کا خوف محسوس کرنے لگے تھے تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ کل ملک کے تقریبا 16 شہروں میں ہوئے مظاہروں کے ذریعہ اس صورتحال کے خلاف اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا ایک راستہ سارے ملک کو بتادیا گیا ہے ۔ انتہائی پرامن اور جمہوری انداز میں ملک میں پیدا ہوئے نفرت کے اس ماحول کے خلاف عوام نے اپنے احساسات کا اظہار کیا ہے ۔ یہ ایک شروعات کہی جاسکتی ہے اوراس تحریک کو پر امن اور جمہوری انداز میں مزید آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔ حکومت اور اس کے نمائندے خواب غفلت کا شکار ہیں یا پھر یہ لوگ عمدا خاموشی اختیار کرتے ہوئے نفرت کے ماحول کو ہوا دینے والوں کی بالواسطہ پشت پناہی کر رہے ہیں۔ صرف ایک ایجنڈہ کو آگے بڑھانے پر توجہ دی جا رہی ہے اور وہ ایجنڈہ نفرت کے فروغ کا باعث ہے ۔
گائے کے نام پر انسانوں کا خون بہانے کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ گائے کا تقدس یا پھر بیف کا استعمال ایک الگ مسئلہ اور الگ بحث ہے لیکن حکومت کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ اگر کوئی ملک میں کسی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو کیا عوام کو اس کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہوگیا ہے ؟ ۔ کیا حکومت نے ایک متوازی عدالتی نظام اور نفاذ قانون کی ایجنسی قائم کردی ہے جو غنڈہ عناصر کے ہاتھ میں دیدی گئی ہے ؟ ۔ اگر گائے کا ذبیحہ غیر قانونی ہے تو کیا انسانوں کا خون بہانا قانونی عمل ہوسکتا ہے ؟ ۔ گائے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی سے حکومت کے گریز کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں اور وہ ایک کے بعد دوسرے شہر میں اپنی دہشت پھیلاتے جا رہے ہیں۔ سرکاری ذریعہ حمل و نقل میں بھی اب سفر خطرہ سے خالی نہیں رہ گیا ہے ۔ کسی بھی ٹرین میں کوئی غیر سماجی عناصر سوار ہوجاتے ہیں اور نہتے معصوم نوجوانوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا جاتا ہے ۔ یہ انتہا درجہ کی لا قانونیت ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کے بیشتر واقعات ان ریاستوں میں پیش آ رہے ہیں جہاں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہیں۔ اس سے یہی شکوک تقویت پاتے ہیں کہ ان عناصر کو ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی بالواسطہ سرپرستی اور تائید حاصل ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ اس طرح کے نفرت انگیز واقعات پر بھی وزارت داخلہ کی جانب سے ان ریاستوں کو کسی طرح کی کارروائی کی ہدایت دینا تو دور کی بات ہے ان واقعات پر ریاستوں سے رپورٹس تک طلب نہیں جا رہی ہے ۔
اب جو عوامی احتجاج شروع ہوا ہے وہ ایک شروعات ہے ۔ اس کو اسی طرح منظم اور جمہوری و پرامن انداز میں ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھانے کی ضرور ت ہے تاکہ جو لوگ اس ماحول میں گھٹن محسوس کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے جذبات کے اظہار سے خوفزدہ ہیں انہیں بھی آگے آنے اور حق و انصاف کیلئے آواز اٹھانے کا حوصلہ مل سکے ۔ جو عناصر اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ذریعہ نفرت اور خوف کا ماحول پیدا کر رہے ہیں انہیں بھی یہ احساس دلایا جائے کہ اس ملک میں مظلوم تنہا نہیں ہیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہوئے والے بھی بہت سے لوگ ہیں۔ اس احتجاج کے ذریعہ حکومت کو بھی یہ احساس دلایا جاسکتا ہے کہ وہ صرف اکثریتی نظریہ سے حکمرانی نہیں چلا سکتی بلکہ اسے دستوری اور قانونی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا جس سے اب تک اس نے مختلف حیلے بہانوں سے فرار ہی حاصل کیا ہے ۔ حکومت کو بہرصورت اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے ۔