نفرت کے خاتمہ کیلئے ہمیں میدان عمل میں آنا ہوگا : مولانا ارشدمدنی

منافرت اور مذہبی شدت پسندی کے خاتمہ کیلئے اب ہمیں میدان عمل میں آنا ہوگا ، محض کانفرنسوں کے انعقاداور تقریریں کردینے سے ان کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ہے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم اپنے گھروں سے نکل کر میدان عمل میں آجائیں اور مذہب کی حقیقی تعلیم سے لوگوں کو روشناش کراکے یہ بتائیں کہ دنیا کا کوئی مذہب تشدداور نفرت کی تعلیم نہیں دیتا ۔ یہ باتیں جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی ہیں ، جو انہوں نے آسٹریا کے ویانا میں کیسڈ(شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بین الاقوامی سینٹر برائے بین المذاہب والثقافات مکالمہ ) کی جانب سے منعقدہونے والی ایک عالمی بین المذاہب کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہیں ۔

واضح ہوکہ مولانا مدنی برصغیر ہندوپاک سے واحد مذہبی رہنما ہیں ، جنہیں اس اجلاس سے خطاب کیلئے خصوصی طورپر مدعوکیا گیا تھا۔ یہ تنظیم مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں محبت واخوت کا جذبہ پیداکرنے ، مذاہب کے تعلق سے پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کو دورکرنے اور مذہبی شدت پسندی ، فرقہ پرستی ، منافرت اورتشددکے خاتمہ کیلئے قائم ہوئی ہے ، اور عالمی سطح پر کام کررہی ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا ایک ہال میں بیٹھ کر مذہبی تعلیمات کو پیش کردینا ، تقریریں کرنا اور یہ کہہ دینا ہی کافی نہیں ہے کہ دنیامیں بسنے والے تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ، اس لئے سب کو آپس میں مل کررہنا چاہئے ۔ بلکہ دنیا میں تیزی سے پھیل رہی منافرت ، مذہبی شدت پسندی اور تشدد کے خاتمہ کیلئے اب ہمیں اجتماعات ، سمیناروں اور بیانات کے دائرہ سے باہر نکل کر عوامی سطح پر کام کرنا ہوگا ۔ عوام کے درمیان رہ کر کام کرنا ہوگا اور ان کے سامنے مذہب کی سچی تصویر پیش کرنی ہوگی ۔

انہوں نے زوردیکر کہا کہ مذہب کے نام پر کسی بھی طرح کا تشددقابل قبول نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ دنیا کا ہر مذہب انسانیت ، رواداری ، باہمی اخوت اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کا پیغام دیتاہے ۔ جو لوگ قتل وغارت گری منافرت اور تشددبرپاکرنے کیلئے مذہب کا استعمال کرتے ہیں ،وہ اپنے مذہب کے سچے ماننے والے ہرگز نہیں ہوسکتے ۔