نظام ِسیاست … ایک جائزہ

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ
ستر ہجری کی دہائی کا آغاز جو اکسٹھ ہجری سے ہوتا ہے حسب پیشن گوئی زحمتوں کا دور ثابت ہوا، ظلم و جور، اختلاف و انتشار، حصول اقتدار کی نا اہلیت کے باوجود ناروا خواہش و تمنا اور اس کے لئے رسہ کشی، فتنہ و فساد وغیرہ جیسے ناپسندیدہ احوال نے ڈیرہ جمایا، یزید بن معاویہ نے تخت و تاج پر قبضہ کیا اور نظام خلافت ونظام رحمت کے سایۂ رحمت کے خاتمہ کا ذمہ دار ٹہرا۔ ملوکیت پر مبنی، مبنی برزحمت حکومت کی بنیاد قائم کی۔ یزید کا سیاہ ترین دور اقتدار گوکہ تین سال آٹھ ماہ تک ہی رہا لیکن اس کے دور سیاہ میں ملت اسلامیہ اور انسانیت کے لئے کوئی کار ہائے نمایاں تو کیا انجام پاتے الٹے اس نے تو ظلم و جور، عصیان و طغیان کا بازار گرم رکھا، اس کے دور حکومت کے سیاہ کارناموں میں سب سے زیادہ اندوہ ناک، غم ناک اور شرم ناک سانحۂ کربلا کا درد انگیز سانحہ ہے۔ یہ وہ خونی داستان ہے کہ اس پر خون کے آنسو بہائے جائیں تو بھی کم ہے، کس قلم میں یا راہے کہ وہ اس خونچکاں داستان رقم کر سکے۔ حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اہل بیت رضی اللہ عنہم پر ظلم ڈھانے اور ان کی بی حرمتی کے جرم عظیم کے ارتکاب نے انسانی سینوں کو اس ک خلاف غم و غصہ سے بھر دیا ہے اس نے ظلم کی ایک ایسی بدترین مثال قائم کی ہے کہ سخت ترین دشمنوں سے بھی اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

نگاہ نبوت اپنی عظیم فراست ایمانی، و بصیر ت روحانی اور نگاہ نورانی سے جس فتنہ پرور زمانے کا ادراک فرمارہی تھی اس سے استعاذہ (اللہ سے پناہ حاصل کرنے) کی برسوں قبل تلقین فرمادی تھی وہ پوری ہوئی۔ اس پیشین گوئی کے ساتھ یہ بھی پیشین گوئی فرمادی تھی کہ اس ستر کی دہائی میں ’’امارۃ صبیان‘‘ بچوں کی حکومت کا قیام عمل میں آئے گا۔ اس سے بھی تم اللہ بزرگ و برتر کی بارگاہ میں پناہ چاہ لو۔ چنانچہ یزید بن معاویہ کے مختصر اور سیاہ ترین دور حکومت کے خاتمہ کے بعد معاویہ ابن یزید تخت پر بیٹھا لیکن غیر اسلامی طرز و روش پر قائم اس کی حکومت زیادہ دن تک قائم نہ رہ سکی، اپنی بدروی کی وجہ خاندان بنو امیہ کی حکومت کے زوال کا باعث بنا، اس سیاہ ترین دور کے خاتمہ کے ساتھ بنو مروان کا خاندان تخت حکومت پر براجمان ہوگیا، بنو مروان کا زمانۂ اقتدار ہی وہ زمانہ ہے جو نگاہِ نبوت میں بچوں کی حکومت کا مصداق ہے۔ اس دور حکومت میں جن فتنہ سامانیوں کا وقوع ہوا وہ بھی انسانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے، دین بیزاری، مذہب سے لاتعلقی اسلامی شعائر کی بے وقعتی، خدا ترس علماء اعلام و صلحائِ ذوی الاحترام کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ان پر بے جا و نا روا تشدد جبر و استبداد، اقتدار کی ہوس، خاندانی و قبائلی تعصب و عداوت، مذہبی انتشار، اخلاقی انحطاط وغیرہ جیسے سیاہ کارنامے اس دور حکومت کے پیشانی پر ایک بد نما داغ ہیں جو تاریخ کے اوراق میں سیاہ اعمال کے طور پر محفوظ ہیں ظاہر ہے کہ یہ دور صاحبان عقل و فہم کا دور کہلانے کا کہاں مستحق ہوسکتا ہے۔ حسب پیشین گوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یقینا دور اطفال کہے جانے ہی کا مستحق ہے۔

خلق خدا کے ساتھ حکمرانوں کا ہمدردانہ و مشفقانہ برتائو بے لاگ عدل و انصاف حکومتوں کے قیام اور ان کے استحکام میں نمایاں رول ادا کرتا ہے، رعایہ کے ساتھ خیروخواہی و بھلائی اللہ سبحانہ کو پسند ہے، اس لئے وہ حکومتیں جو اس اصول پر کار بند رہتی ہیں وہ نہ صرف تادیر تخت حکومت پر متمکن رہتی ہیں بلکہ انسانی دلوں پر ان کی حکمرانی ہوتی ہے۔ جن حکمرانوں نے ظلم و جور میں کامیابی کا خواب دیکھا ہے وہ کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکا، انسانیت کا قتل و خون جن کے تخت حکومت کی بنیاد بنا ہو وہ دنیا میں تادیر قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی انسانی دلوں میں ان کے لئے کوئی جگہ ہوتی ہے۔ انسانی اقدار کی پامالی سخت ترین جرم ہے اخروی سزا تو آگے ہے لیکن دیر سویر شامت اعمال ان کے گلے کا ہار بنتی ہے سوائے رسوائی کے اور کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
شامت اعمال فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا ہوتی ہے

دنیا کے پردۂ سیمین پر اچھے اور برے کردار دنیا نے پہلے بھی دیکھے ہیں اور آج بھی دیکھ رہی ہے ان کے اچھے اور برے نتائج بھی درس عبرت ہیں۔رات و دن برابر نہیں ہوسکتے، روشنی اور تاریکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے طاہر ہے اچھائی اور بھلائی، نیکی و خیر خواہی تو نور ہیں جو اچھے انسانو ںکے کردار سے جھلکتے ہیں بینا تو بینا نابینا بھی اس روشنی کا ادراک کر لیتے ہیں۔ انسان اخلاق و اقدار پر مبنی کردار میں ایسی خوشبو ہے جو باطن کے مشام جاں کو معطر کرتی ہے۔ جس سے انسان مسرور و محسور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اس میں انسانی قلوب کی حیات و زندگی سامان ہے، اس کے برعکس جبر و استبداد جرم و برائی ایک ایسا اندھیارا ہے جس میں بینا انسان بھی ٹھوکریں کھا کر اوندھے منہ گر پڑتا ہے۔ ان برے کرداروں میں کچھ ایسا تعفن ہے جو روحانی قوت شامّہ کو مضطرب کر دیتا ہے جس سے دلوں کی زندگی میں مردگی چھاجاتی ہے۔ نیت اچھی ہو تو حکمرانوں کے لئے اس میں غور و فکر کا سامان ہے اچھے اور بھلے کردار اختیار کرنے کا عمل میدان بھی ان کیلئے کھلا ہے۔

بطور نمونہ حکومت و سیاست کا یہ وہ پس منظر ہے جو راہ دکھاتاہے کہ درست و صحیح نظام حکومت کیا ہوتا ہے اور اس کے ثمرات کس قدر بابرکت و باعث رحمت ہوتے ہیں۔ یہ بھی کہ وہ نظام حکومت جو خدا سے دوری و دین بیزاری کی بنیادپر قائم ہوتا ہے، کیسے انسانی دلوں میں نفرت کے تخم بوتا ہے، رعایہ پر ظلم و جور کے سبب کیسے وہ ناکام و نامراد ثابت ہوتا ہے، اس وقت دنیا میں قائم حکومتوں کے تمام ارباب اقتدار کیلئے خواہ وہ شاہی طرز کے ہوں کہ جمہوری اس میں عبرت کا سامان ہے اس سے نصیحت حاصل کر کے دنیا میں نیک نام اور آخرت میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔