نریندر مودی کا دورہ امریکہ

اگر تو چاہتا ہے کامرانی
ذرا قلب و نظر کو بھی وسیع کر
نریندر مودی کا دورہ امریکہ
وزیراعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ اور اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے بعد ان کی صلاحیتوں پر ہونے والی تنقیدوں کے درمیان میڈسن اسکوائر پر غیرمقیم ہندوستانیوں سے کی گئی ان کی تقریر کی زبردست ستائش ہورہی ہے۔ ہندوستان کو 21 ویں صدی کی قیادت کرنے کا عزم ظاہر کرنے والے مودی سے نوجوانوں کو ترغیب دی کہ وہ ملک کی ترقی میں سرگرم رول ادا کریں۔ نریندر مودی کی تقریر انتخابی جذبات کی لہر میں ووٹ حاصل کرکے اقتدار تک پہونچنے والے لیڈر کی پالیسی کی روشنی میں احتساب کے عزم کے عکاس ہونی چاہئے تھی لیکن عوام کو خاص کر اپنے حامیوں کو خوش کرنے کیلئے کی گئی تقریر سے قوم کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ صدر امریکہ بارک اوباما سے ان کی ملاقات کو خاص اہمیت دی گئی تھی۔ بارک اوباما اور مودی نے چلیں ساتھ ساتھ کے عنوان سے مشترکہ بیان جاری کیا۔ ان کا دورہ ہند ۔ امریکہ تعلقات میں ایک نئے عزم اور فعالیت کو اپنی جگہ قابل تحسین و اطمینان ظاہر کیا جارہا ہے۔ ان کے چاہنے والے غیرمقیم ہندوستانیوں نے غیرمعمولی جذبات و خوشی کا اظہار کیا ہے۔ میڈسن اسکوائر پر این آر آئیز یا پی آئی او کی موجودگی سے لطف اندوز ہونے والے نریندر مودی نے مستقل ویزا دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کے حامیوں سے ہٹ کر ملک کی کروڑہا عوام ایک بہتر حکمرانی کے انتظار میں ہیں کیونکہ انہوں نے انتخابات کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ عوام کیلئے اچھے دن آئیں گے۔ اچھے دنوں کی اب تک کہیں بھی کوئی اشارہ اور کرن نظر نہیں آئی ہے۔ اقل ترین حکومت اور اعظم ترین حکمرانی میں ان کا وعدہ پورا نہیں ہوا ہے۔ ہندوستان کی عوام نے انہیں زیادہ سے زیادہ قوت اور اختیارات عطا کئے ہیں۔ ایک مضبوط ہندوستان کے لیڈر کی حیثیت سے انہوں نے عالمی سطح پر نمائندگی کا آغاز کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرس سے لیکر وائیٹ ہاوز تک ان کا خیرمقدم ہونے کے بعد ان کے فرائض منصبی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کی طاقت کو اپنی پالیسی یعنی تھری ڈیز، ڈیموکریسی، ڈیموگرانی اور ڈیمانڈ پر محیط کی ہے تو انہیں اپنی پارٹی اور حکومت کی کارکردگی کو عوام کے توقعات کے مطابق پورے کرنے ہوں گے۔ امریکہ میں مقیم ہندوستانیوں کو وہ زیادہ دن تک بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ اگرچیکہ ان این آر آئیز نے انہیں ضرورت سے زیادہ عزت دی ہے تو اس کے مطابق مودی کو اس عزت و احترام کا پاس و لحاظ رکھنا ہوگا۔ نیویارک میڈسن اسکوائر گارڈن سے خطاب کرنے والے وہ پہلے ہندوستانی لیڈر ہیں تو انہیں اس عزت و اکرام کے عوض عوام کی بہتر خدمت اور وعدوں و خوابوںکی دنیا کو حقیقی شکل دینے کی جانب قدم اٹھانے ہوں گے۔ امریکہ کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات یو پی اے حکومت میں ایک سطح تک کشیدہ ہوگئے تھے۔ ہندوستانی تاجر برادری اور بیرونی سرمایہ کاروں کو مودی سے جو توقعات ہیں اس کے مطابق نتائج برآمد ہوئے ہیں توقعاتی سطح پر ہندوستان کو ایک مضبوطی ملے گی۔ امریکہ کے اعلیٰ کارپوریٹس سے مودی کی ملاقات بھی ہندوستان میں بنکس استحکام اور تجارت کیلئے ایک دوستانہ ماحول کو فروغ دینے کا ذریعہ سمجھا جارہا ہے۔ ہندوستان میں سرمایہ کاری کے خواہاں یہ عالمی ادارے اپنے مفادات کی پوجا کرنے کیلئے بے تاب ضرور ہیں۔ اس لئے مودی کو بحیثیت وزیراعظم سرمایہ کاری کی کی دوڑ میں ایسے اقدامات نہیں کرنے چاہئے جس سے ہندوستان کے عوام کے وسائل کو دیگر ملکوں کے صنعتکاروں اور تاجروں کے پاس گروی رکھا جائے۔ نیویارک میں وزیراعظم مودی سے ملاقات کرنے والوں نے یہی دلچسپی دکھائی ہے کہ ہندوستان میں سرمایہ کاری کیلئے سازگار ملک بنایا جائے۔ مودی نے ہندوستان میں اگرچیکہ بیورو کریٹس کو پابند وقت بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اب سرکاری دفاتر میں حاضر وقت پر صدفیصد ہورہی ہے مگر کارکردگی کے معاملہ میں نتائج توقع کے مطابق نہیں ہیں۔ سرخ فتہ کو برخاست کرتے ہوئے سرمایہ کاری کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ظاہر کی گئی ہے۔ مودی کو کرشماتی لیڈر قرار دینے والے گولڈمن ساچس کے سربراہ لا اینڈ بلاتکفین نے اپنی کمپنی کو بھی ہندوستان کی ترقی کے سفر میں شامل رکھا ہے۔ ان کے علاوہ امریکی کارپوریٹس بشمول ٹیکنالوجی کی مہارت والی کمپنی آئی بی ایم نے حکومت کے کئی پراجکٹس بشمول اسمارٹ سٹی پراجکٹ میں حصہ دار بننے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ ہندوستان کو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لیکر خلائی مشن میں ہر قدم پر کامیابی مل رہی ہے تو اس رفتار کو برقرار رکھنے کیلئے مرکز میں موجود نریندر مودی حکومت کو بعض تنگ نظری والی پالیسیوں سے گریز کرنا ہوگا۔ ہندوستان کو ایک کھلا ذہن کا حامل ملک قرار دینے کے ساتھ اس میں صد فیصد فراخدلانہ اور دیانتدارانہ حکمرانی کے فرائض انجام دینے ہوں گے۔