نریش اگرول‘ کی کانگریس ‘ سماج وادی پارٹی‘ بی ایس پی ‘ ایس پی اور پھر دوبارہ بی جے پی کی خلا ء بازیاں

تین دہوں پر مشتمل نریش اگروال کے سیاسی کیریر میں انہوں نے کانگریس ‘ ایس پی اور بی ایس پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔
نئی دہلی ایک ایسے وقت جب سماج وادی پارٹی کے اندر خاندانی کشمکش چل رہی تھی ‘ ایک طرف چچا تو دوسرے طرف بھتیجا ایک دوسرے کے سامنے آگے تھے اس دوران نریش اگرول دونوں کے درمیان میں کھڑے ہوئے’’ اتحاد‘‘ کے لئے ایک پل کا کام کررہے تھے۔ جب اکھیلیش یادو نے جب سماج وادی پارٹی کے قومی صدر بنے تو نریش اگروال ان کے ساتھ تھے اور انہیں اس کے انعام کے طور پر قومی جنرل سکریٹری بنایاگیا۔

پیرکے رو ز جب انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی اس وقت اگروال نے سماج وادی پارٹی لیڈر ملائم سنگھ یادو اوراسی کے ساتھ رام گوپال یادو سے یہ کہتے ہوئے اپنی انسیت کا اظہار کیاکہ وہ کبھی ان دنوں کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے‘ اس کے علاوہ وزیراعظم نریندر مودی اور چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ کی کافی ستائش بھی کی۔

تین دہوں پر مشتمل نریش اگروال کے سیاسی کیریر میں انہوں نے کانگریس ‘ ایس پی اور بی ایس پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور اب وہ بی جے پی میں شامل ہوگئے۔ فی الحال وہ راجیہ سبھا میں ایس پی کے رکن پارلیمنٹ ہیں۔

اسی دوران انہوں نے دو علیحدہ پارٹیوں سے الیکشن سے جیتا ہے‘ مرکزی اترپردیش کے ہردوئی ضلع سے سات مرتبہ کے رکن اسمبلی رہے نریش اگروال نے پیر کے روز اس وقت ایس پی چھوڑدی جب جیا پردا کو پارٹی نے راجیہ سبھا کے لئے اپنا امیدوار مقرر کیا۔ہاردوائی وہی علاقے ہے جہاں سے بی جے پی نے ایک اور سماج وادی پارٹی لیڈر اشوک باجپائی کو اٹھاکر راجیہ سبھا کے لئے اپنا امیدوار بنایا ہے۔

ایوان بالی میں بی جے پی امیدوار کی حیثیت سے وہ 2010میں منتخب ہوئے تھے اور دوبارہ سال2012میں سماج وادی پارٹی سے دوبارہ منتخب ہوئے۔

سال2008میں سماج وادی پارٹی چھوڑ کر ایس پی میں شامل ہونے کے بعد سماج وادی پارٹی میںیہ ان کا دوسرا دور تھا۔ اس کے بعد مایاوتی نے انہیں پارٹی کا قومی جنرل سکریٹری مقرر کرکے 2009کے لوک سبھا میں فرخ آباد سے اپنا امیدوار بھی مقرر کیا تھا جہا ں سے وہ ہار گئے۔

جب بی ایس پی نے ان کے بیٹے نتن کو 2011میں اسمبلی ٹکٹ دینے سے انکارکردیا تو وہ واپس سماج وادی پارٹی میں شامل ہوگئے۔

پہلی مرتبہ اگروال کانگریس کے ٹکٹ پر ہردوائی سے 1980میں منتخب ہوے تھے اس کے بعد 1989میںآزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہوئے۔ اس کے فوری بعد کانگریس میں شمولیت اختیار کی اور تین مرتبہ اسمبلی الیکشن میں1991‘1993اور 1996میں کانگریس کے ٹکٹ پر کامیاب حاصل کی ۔دوبارہ انہوں نے 2002اور2007میں جیت حاصل کی مگر اس مرتبہ وہ ایس پی کے امیدوار تھے۔ سال2012کے اسمبلی الیکشن میں اگروال اپنی وارثت اپنے بیٹے نتن کو منتقل کردی جو اسی ہردوائی کی سیٹ سے کامیاب اکھیلیش یادو کی حکومت میں وزیر بھی بنے۔

نتن جوکہ ہردوائی سے ایس پی کے رکن اسمبلی ہیں اگرول کے پیر روز بی جے پی میں شامل ہونے کے ساتھ ہی راجیہ سبھا امیدوار کے لئے اپنا ووٹ بی جے پی کے حق میں دینے کا اعلا ن کیا۔اگرول کلیان سنگھ کی زیرقیادت رہی بی جے پی حکومت کا حصہ اس وقت رہے اور رام پرکاش گپتا اور راج ناتھ سنگھ کی زیرقیادت بی جے پی حکومت میں لوک تانترک کانگریس پارٹی تشکیل دینے بعد منسٹر بھی رہے۔ملائم سنگھ یادو کی حکومت میں2003اور2007کے دوران انہوں نے توانائی اور ٹرانسپورٹ کا قلمدان بھی سنبھالا تھا۔

پیرکے روز بی جے پی میں شامل ہونے کے ساتھ ہی ’ڈانس کرنے والی‘ تبصرہ کرنے والے اگروال کو ان کے متنازعات بیان کی وجہہ سے راجیہ سبھا سے کئی مرتبہ باہر بھی نکالا جاچکا ہے۔ سال2017ڈسمبر میں اگرول نے کہاتھا کہ’’ پاکستان نے کلبھوشن کو دہشت گرد قراردیا اور ان کا ملک جھادو کے ساتھ وہی رویہ اپنا رہا ہے‘’ بعد ازاں انہوں نے اس پر صفائی بھی پیش کی تھی۔پچھلے سال اگروال نے ایوان میں ہندؤ بکریوں کے متعلق ایک متنازعہ بیان دیاتھا جس پر ایوان میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ بعدازاں اگروال نے معافی بھی مانگ لی تھی۔