نرمی ،لطف ومہربانی

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے امتحان کی غرض سے انسانوں کو مختلف طبائع ومزاج کا بنایاہے،انسان کی طبیعت وجبلت میں روحانی وملکوتی صفات بھی رکھے گئے ہیں ،حیوانی وبہیمی تقاضے بھی۔اس کے برعکس فرشتے روحانی وملکوتی صفات سے متصف ہیں،جبکہ حیوانات صرف مادی وسفلی تقاضوں کے حامل ہیں،انسان کا امتحان اس بات میں ہے کہ وہ مادی وسفلی تقاضوں کوروحانی وملکوتی صفات کا تابعداربنائے رکھنے کی جدوجہد کرے،اسی کا نام مجاہدہ ہے۔اس مجاہدہ میں کامیابی حاصل ہوجائے توانسان کے روحانی اورملکوتی صفات بہیمی وحیوانی صفات پرغلبہ پالیتے ہیں،اسلام کوایسے ہی انسان مطلوب ہیں ،انسان میںجو اعلی اخلاقی صفات ودیعت کئے گئے ہیں مختلف ہیں،ان میںنرمی ومہربانی ایک اہم و صف ہے،اس کی ضدسختی ودرشتی ہے۔یہ دونوں صفات ہر انسان میں موجود ہوتے ہیں لیکن کسی میں کم اورکسی میں زیادہ،یہ ممکن ہے کسی پرنرمی ومہربانی کا غلبہ ہواورکسی پرسختی ودرشتی کا،نرمی ومہربانی محمودصفت ہے جبکہ سختی ودرشتی ناپسندیدہ ۔اس لئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبرمحمدرسول اللہ ﷺ کو رحمت ومہربانی ،لطف ونوازش کا پیکرجمیل بنایاہے۔ارشادباری ہے’’یہ آپ پراللہ کی رحمت ہی تو ہے کہ آپ ان کے ساتھ نرم ہیں اورکہیں آپ تندخواورتیزمزاج ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے منتشرہوجاتے ‘‘(آل عمران:۱۵۹)
نرم خوئی ،خوش اخلاقی ،لطف ومہربانی ،عفوودرگزرایسی اعلی صفات ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ ﷺ کوان اعلی صفات کے ساتھ بکمال وتمام متصف فرمایاہے۔پھرسیدنا محمدرسول اللہ ﷺ نے نرمی ومہربانی سے متعلق جن نعائم دنیوی واخروی کی بشارت دی ہے اسکودل ودماغ پرنقش کرلینے کی ضرورت ہے ۔ظاہرہے ایمان وایقان کے ساتھ اپنے مزاج کی تربیت واصلاح کرکے اپنے آپ کونرم خوئی ونرم مزاجی کا پیکربناکر عملی زندگی میںاسکے فوائد ومنافع کا سرکی آنکھوں سے مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ارشادفرمایا’’بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نرم ومہربان ہے،نرمی ومہربانی کو پسندفرماتاہے ،نرمی ومہربانی پروہ کچھ عطافرماتاہے جوسختی ودرشتی پرعطا نہیں فرماتا،یہ بھی کہ نرمی ومہربانی پرجوکچھ عطافرماتاہے نرمی ومہربانی کے علاوہ کسی اورچیزپرعطا نہیں فرماتا ‘‘ (مسلم:۴۶۹۷)کچھ یہودی آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضرہوئے اور السلام علیکم کے بجائے ’’السام علیکم‘‘ کہا ، آپ ﷺ نے اس کے جواب میں ’’وعلیکم ‘‘فرمایا،لیکن ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں السام علیکم ولعنکم اللہ وغضب علیکم کہا،یعنی ان کلمات سے اپنی ناراضگی کا اظہارکیا، آپ ﷺ نے فرمایا: چھوڑو اے عائشہ!نرمی ومہربانی کو لازماً اختیارکروسختی ودرشتی اوربے حیائی سے اپنے آپ کو بچائو،یقینا نرمی ومہربانی کی صفت جس میں ہوتی ہے اس کوزینت بخشتی ہے اورجس سے وہ نکال لی جاتی ہے اس کو عیب داربنادیتی ہے (مسلم:۳۱۷۱)
نرمی ومہربانی کے وصف کی رفعت وعظمت کیلئے یہ بات کافی ہے کہ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی خاص صفت ہے ، جہاںوہ اپنے بندوںپربے نہایت رحیم ومہربان ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کوایسے امورکی تکلیف نہیں دیتا جو ان کی قوّت برداشت سے باہرہوں اورجن کی وجہ خود انسان مصیبت وسختی میں مبتلاء ہوں۔وہیںاللہ سبحانہ وتعالیٰ کو یہ بات پسندہے کہ اسکے بندے اس عالی صفت سے متصف ہوں اور آپس میں ایک دوسرے پرمہربان رہیں،اقوال وافعال میں نرمی ،رویہ اوربرتائو میں شفقت ومہربانی اورمعاملات میں یسروآسانی کوہمیشہ ملحوظ رکھیں، کسی بھی پہلوسے دوسروں کومصیبت وتکلیف میںمبتلاء کرنے سے سخت احتراز کریں۔علامہ اقبالؔ رحمہ اللہ کی زبان میں بارگاہ ایزدی میں دعاکرتے رہیں۔
مری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے
کسی سے شکوہ نہ ہو زیرآسماں مجھ کو
سماج میں ایسے بعض نادان اصحاب بھی ہوتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ معاملات میں سختی ودرشتی کے بغیر اچھے نتائج حاصل نہیں ہوسکتے اس لئے وہ اپنے اس غیر اخلاقی رویہ پر مطمئن رہتے ہیں ،ان کے مزاج کی درشتی وسختی ان کے لب ولہجہ کی کرختگی ان کے رویہ وبرتائو سے ظاہر ہوتی رہتی ہے،صدربالاحدیث پاک کے ایک ایک جملہ سے اس کی نفی ہوتی ہے۔مقدرات اپنی جگہ اٹل ہیں ،کس کو کیا ملے گا ،کیا نہیں ملے گا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے لیکن سنت اللہ یہ ہے کہ نرمی ومہربانی کی صفت پرنوازشات کی پیہم بارش ہوتی رہتی ہے،کرم فرمائیوں کا لا متناہی سلسلہ جاری وساری رہتاہے،مزاج کی سختی ودرشتی ان عظیم منافع سے محرومی کا باعث بنتی ہے۔دنیوی واخروی مصالح ومنافع کی تحصیل میں بھی یہ عظیم صفت بڑی مؤثرہے۔نرمی ومہربانی کی صفت پرجہاں بے نہایت اجروثواب کا وعدہ ہے جس سے آخرت سنورتی ہے جوخالصۃ معاد (آخرت )کا مسئلہ ہے وہیں دنیا کے معاملات ومسائل کے نتیجہ خیز حل کا رازبھی اس میں پوشیدہ ہے،نرم خوئی ونرم مزاجی ،لطف ومہربانی ،لحاظ ومروت کا۔ حصول معاش میں بڑا اہم رول ہے۔مادی اعتبارسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ جن افراد سے وسائل معاش مربوط کر تے ہیں وہ بھی بذات خودفطری طورپران صفات کو پسندکرتے ہیں،اسبابی نقطئہ نظرسے وسائل معاش کی راہیں آسان ہوجاتی ہیں پھرروحانی اعتبارسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی غیبی مددان جیسی صفات کے حامل افرادکے ساتھ شامل حال رہتی ہے۔چونکہ نرمی ومہربانی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو پسندہے اس لئے ایسے انسان پراس کی عطا وبخشش کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں ،سخت ودرشت مزاج رکھنے والوں پریہ دروازے بندرہتے ہیں۔معاشرتی اعتبارسے اس عالی صفت کے حامل افرادکی وجہ خیروبرکت کا ماحول بنتاہے، مجبورولاچار کسمپرسی کی زندگی گزارنے پرمجبوررہنے والوں کیلئے ایسے افرادفرشتہ رحمت ثابت ہوتے ہیں چونکہ رحمت ومہربانی کی صفت سے متصف افراد ان کے غمگساربنتے ہیں ،مصیبت زدہ انسانیت کے دردکا مداواکرتے ہیں جس کی وجہ انسانی سماج گہوارئہ رحمت بنتاہے۔سختی ودرشتی کی صفت کسی میں غالب ہوتوکوشش ومحنت کرکے نرمی ومہربانی کی صفت کوغالب کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، سیدنا محمدرسول اللہ ﷺکی خدمت میں ایک صحابی نے اپنی مزاج کی درشتی وسخت دلی کی شکایت کی تو آپ ﷺ نے اس کا علاج تجویزفرمایا ’’ تم اگراس بات کو پسندکرتے ہو کہ تمہارے دل نرم ہو جائیں اورتمہارے کام آسانی سے بن جائیں توپھر یتیم سے رحمت وشفقت کے ساتھ پیش آئو،اس کے سرپرہاتھ پھیرو، مسکین کوکھاناکھلائوتمہارے دل نرم ہوجائیں گے اورتمہارے کام بہ آسانی تکمیل پاجائیں گے (مسنداحمد: ۱۳۵۰۸) نرمی ومہربانی کی صفت سے محرومی بہت بڑی محرومی ہے ،ارشادہے’’نرمی ومہربانی کی خوسے جومحروم کردیا گیاگویا وہ تمام تر خیرسے محروم کردیا گیاہے‘‘(مسلم:۴۶۹۴)ایک اورحدیث پاک میں ارشادہے’’جس کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے نرم مزاجی کی خصلت کا حصہ مل گیا اس کودنیا اورآخرت کے ہر طرح کے خیرکا حصہ مل گیا،نرمی ومہربانی کی صفت سے جومحروم کردیا گیا وہ دنیا وآخرت کے خیر سے محروم کردیا گیا(بغوی:۶؍۳۰۷)ایک اورحدیث پاک میں ارشادہے’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ جس گھروالوں کونرمی کی صفت عطافرماتے ہیں اس سے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارادہ ان کو نفع پہنچانے کا ہوتاہے اورجس کونرمی کی خصلت سے محروم کردیا گیاہوتو یہ محرومی اس کے لئے ضررونقصان کا باعث ثابت ہوتی ہے‘‘ (المعجم الاوسط:۵۲۲۱)
خاندانی ومعاشرتی زندگی میں نرمی ومہربانی سختی ودرشتی کا بڑا رول ہے،اس کا دائرہ بڑاوسیع ہے۔نرمی ومہربانی کی صفت کے اچھے اثرات گھریلو زندگی میں ،عزیزوں ،رشتہ داروں اورپڑوسیوں وغیرہ کے ساتھ دن رات کے تعلقات میں دیکھے جاسکتے ہیں اوراسکے اچھے نتائج وثمرات مرتب ہوتے ہیں۔سختی ودرشتی بھی سماجی معاملات میں اپنے مضر اثرات دکھاتی ہے ،یہ ناپسندیدہ صفت ایک استاذ کو اچھا استاذ،شاگردکو اچھا شاگرد،ماں باپ کو اچھے ماں باپ،اولادکو اچھی اولاد،زوجین کو اچھا شوہراوراچھی بیوی ،پڑوسی کوایک اچھا پڑوسی،ایک تاجرکوایک اچھا تاجر،رشتہ دارکوایک اچھا رشتہ دار،ایک حاکم کو اچھا حاکم ،رعایہ کو اچھی رعایہ نہیں بننے دیتی، الغرض زندگی کے تمام شعبوں میں ایک کو دوسرے کے حق میں اچھے ثابت ہونے میں اس سے جابجارکاوٹ کھڑی ہوتی ہے۔آخرت کے نقصان وخسران کا توکوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔