نجی زندگی کی آزادی

ہندوستانی نظام عدلیہ کا بے حد احترام کیا جاتا ہے ۔ عوام کو انصاف دلانے میں عدلیہ کا نظام مضبوط ہے ۔ لیکن حالیہ دنوں عدلیہ کے فیصلے اور بعض احکامات پر معاشرہ کے بعض گوشوں کو مبتلائے تشویش کردیا ہے ۔ خاص کر جب مسئلہ ہندو ۔ مسلم رشتوں اور طلاق یا شریعت کا ہو تو اس پر عدلیہ کے رول پر نگاہیں اٹھ رہی ہیں تو کہیں ان نگاہوں کو موڑ کر رکھدیا جارہا ہے ۔ عدلیہ کی کارکردگی میں ایک اور مسئلہ سرگرم ہو کر سرد پڑ گیا ۔ اس مسئلہ کو ادھورا چھوڑ دیا گیا ۔ یہ مسئلہ کیرالا کی ایک لڑکی اور ایک لڑکے کی شادی سے متعلق تھا جس کو ہندو اور مسلم کے آئینہ سے دیکھنے والوں نے ’ لوجہاد ‘ کا نام دے کر ہندو لڑکی کو والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے کی سزا دیتے ہوئے اسے پولیس ، عدلیہ ، میڈیا اور معاشرہ کی نگاہوں کے سامنے اس بے شرمی سے گشت کروایا گیا کہ اب ساری بھاگ دوڑ کے باوجود عدلیہ اسے اس کی ذاتی زندگی کی آزادی کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دینے سے قاصر دکھائی دی ۔ کیرالا کی اسلام قبول کر کے ایک مسلم نوجوان شفین جہاں سے شادی کرنے والی ہندو لڑکی ہادیہ ( پرانا نام اکھیلا ) کے کیس پر کیرالا ہائی کورٹ کے فیصلہ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ یہ لڑکی اس بات سے بے خبر ہے کہ اسے اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہئے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی ایک کے کنٹرول میں ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کی ذہن سازی کی گئی ہے اسے بہکایا گیا ہے ۔ بعض افراد کے دباؤ میں آچکی ہے ۔ کیرالا کی عدالت نے اپنے اس طرح کے فیصلہ کے ذریعہ لڑکی کے والد کے ادعا کی حمایت کی اور لڑکی کو اس کی مرضی سے فیصلے کرنے کے اختیار سے محروم کردیا گیا تھا جب کہ یہ معاملہ عدالت عدلیہ کو پہونچا تو اس نے اس معاملہ کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعہ تحقیقات کروائی اور اس تحقیقاتی ایجنسی نے ایک لڑکی کے جذبات کی غلط ترجمانی کرتے ہوئے اسے مشکوک بنادیا اور لوجہاد کو ایک دہشت گردی واقعہ سے مربوط کرنے کی کوشش کی ۔ اس سیکولر ملک میں ان دنوں فرقہ پرستوں کا کنٹرول ہے اور ہر شعبہ کو اسی زاویہ نگاہ سے نازک مسائل کو متنازعہ بنا کر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ کیرالا کی لڑکی کے مسئلہ کو بھی ہندو ۔ مسلم زاویہ سے دیکھنے کی وجہ سے مسئلہ سپریم کورٹ میں زیر دوراں رکھا گیا ۔ عدالت عدلیہ کے سامنے حاضر ہونے والی ہادیہ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ وہ اپنے شوہر شفین جہاں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور اس کی سرپرستی میں وہ اپنی ماباقی تعلیم پوری کرنا چاہتی ہے ۔ عدالت میں واضح بیان دینے کے باوجود سپریم کورٹ نے اس کی زندگی کی آزادی کے حق میں واضح فیصلہ نہیں کیا بلکہ صرف اتنی ہدایت دی کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے اپنا مقصد پورا کرسکتی ہے ۔ ہندوستان میں تبدیلی مذہب کو ایک خراب نگاہ سے دکھا کر بعض گوشے ہندو مسلم تناظر میں لوجہاد کا نام دے رہے ہیں اور اسے دہشت گردی سے مربوط کرنے میں اول دستہ رول ادا کررہے ہیں ۔ ایسے میں ہندوستانی نظام عدلیہ کو پوری غیر جانبداری اور قانونی پہلوؤں کے تحت اپنا رول ادا کرنے کی ضرورت تھی ۔ سپریم کورٹ کی بنچ نے ہادیہ کے کیس میں واضح موقف اختیار کرنے کے بجائے سرسری طور پر اس کیس میں چار ماہ کی سماعت اور کارروائی کے بعد صرف کالج کی تعلیم پوری کرنے اور کالج کے ڈین کو اس کا سرپرست و نگران کار بناکر ہادیہ کے اس جذبہ کو نظر انداز کردیا کہ وہ اپنی نجی زندگی کو آزادانہ طور پر گذارنے کا حق رکھتی ہے ۔ اس کے انسانی حقوق کے ساتھ ایک خاتون کے جذبات کو سلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ہادیہ کی آزادی پر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہیں کرسکا ۔ اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان کے موجودہ حالات کس طرف جارہے ہیں اور نظام عدلیہ کو کس حد تک مجبور کر کے رکھا گیا ہے ۔ لڑکی کے والدین نے اسے اس کے شوہر سے دور کر کے نظر بند رکھا اور اب وہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا حق تو حاصل کرچکی ہے لیکن اسے ذاتی زندگی کو آزادانہ طور پر جینے کا حق معلق رکھا گیا ۔ عدلیہ کے سامنے ایک بالغ ذہنی طور پر تندرست اور ہوشمند لڑکی ہادیہ کے واضح بیان کے باوجود اسے اپنی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تو دیدی گئی لیکن اسے اپنے شوہر کے پاس واپس جانے کی اجازت نہیں مل سکی ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں عدلیہ ذاتی آزادی خود مختاری اور ایک شخص کے فریڈم کے تصور کو سمجھ نہیں سکی یا سمجھنے سے پہلوتہی سے کام لیا ہے ۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا کیا اب ہادیہ عدلیہ کی غلطیوں یا خامیوں کا تشہیری باب بن کر رہ جائے گی۔۔؟