نتیش کی این ڈی اے میں واپسی

صرف وقتی فائدہ پر آپ رکھتے ہیں نظر
آپ کے ہر فیصلہ کے دیرپا اثرات ہیں
نتیش کی این ڈی اے میں واپسی
بہار کے چیف منسٹر اور جے ڈی یو کے صدر نتیش کمار نے بالآخر چار سال بعد این ڈی اے میں واپسی کرلی ۔ انہوں نے عملا نریندرمودی کی سرپرستی قبول کرتے ہوئے ریاست میں اپنے اقتدار کو بچائے رکھا ہے ۔ کانگریس اور آر جے ڈی کے ساتھ مل کر خود بی جے پی کے خلاف انتخابات لڑنے والے نتیش کمار نے بچکانہ عذر اور بہانے پیش کرتے ہوئے اس عظیم اتحاد کا شیرازہ بکھیر دیا اور انہوں نے دوبارہ این ڈی اے میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے ملک کی سکیولر اقدار اور جمہوریت کی بالا دستی کو اپنے اقتدار کی خاطر قربان کردیا ہے ۔ جے ڈی یو میں داخلی طور پر جو حالات گذشتہ چند ماہ کے دوران پیش آئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ نتیش کمار نے جنتادل یو کو اپنی شخصی ملکیت بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے ۔ وہ جب چاہیں جیسا چاہیں فیصلہ کرتے ہیں اور ان کے پارٹی کے منتخب عوامی نمائندے اپنی اپنی کرسی کو بچانے کیلئے جے ڈی یو کی تائید کرنے میں سب سے آگے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ جمہوریت کا مذاق ہے جو جے ڈی یو نے بنادیا ہے ۔ ایک نظریہ کے خلاف انتخابات میں مقابلہ کیا اور انتخابات کے بعد اسی نظریہ کو عوام پر مسلط کردیا حالانکہ عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ اس نظریہ کو مسترد کردیا تھا ۔ یہ جمہوریت اور عوام کی رائے کی ہتک ہے ۔ اس بحث سے قطع نظر نتیش کمار کی بے چینی کا چند ماہ قبل سے اندازہ ہو رہا تھا جب انہوں نے کئی موقعوں پر اپنے اتحاد کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے بی جے پی اور نریندر مودی کی حمایت والا موقف اختیار کیا تھا ۔ نوٹ بندی پر جہاں سارے ملک میں تنقیدیں ہوئی تھیں وہاں نتیش کمار نے اس کی واضح تائید کی تھی ۔ ان کی حلیف پارٹیوں کا موقف حالانکہ ان سے مختلف تھا ۔ نتیش کمار نے صدارتی انتخاب کے مسئلہ پر این ڈی اے کے امیدوار کی تائید کرتے ہوئے اپوزیشن کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا تھا حالانکہ اس وقت تک وہ رسمی طور پر اپوزیشن اتحاد ہی کا حصہ تھے ۔ انہوں نے جی ایس ٹی کے مسئلہ پر بھی مودی حکومت کی تائید کی ۔ حالانکہ جی ایس ٹی پر تمام ریاستی حکومتوں نے حکومت کی تائید کی لیکن نتیش نے اس میں بھی سبقت لیجانے کی کوشش کی تھی ۔
نتیش کمار نے محض اپنی کرسی اور اقتدار کو بچانے کیلئے لالو پرساد یادو اور ان کے افراد خاندان کے خلاف کرپشن کے الزامات کا سہارا لیا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ کرپشن کے الزامات کی وجہ سے ان کا دم گھٹنے لگا تھا ۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ان کا دم اب بھی گھٹنا چاہئے بلکہ ان کی سانسیں تھم جانی چاہئیں کیونکہ اب خود نتیش اور بی جے پی کے اتحادی دور حکومت کا ایک اسکام منظر عام پر آیا ہے ۔ اس وقت موجودہ ڈپٹی چیف منسٹر سشیل کمار مودی بھی حکومت میں شامل تھے اور وہ فینانس ہی کا قلمدان رکھتے تھے ۔ لیکن اب اس اسکام کی تحقیقات کروانے اور غیر جانبدارانہ موقف اختیار کرنے کی بجائے نتیش کمار اس کو ممکنہ حد تک چھپانے کی کوشش میں جٹ گئے ہیں۔ اس پر وہ کسی طرح کا تبصرہ کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس کی ذمہ داری خود انہیں بھی قبول کرنی چاہئے ۔ لیکن حقیقت ایسی نہیں ہے ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ نتیش کمار ملک کے حالات اور بی جے پی اور اس کی ہم قبیل تنظیموں کے پروپگنڈہ سے متاثر ہوگئے ہیں اور انہیں بی جے پی اور نریندر مودی کا خوف لاحق ہوگیا ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پہلے تو 2019 میں وزارت عظمی امیدوار ہونے سے انکار کردیا اور پھر اب خود مودی کے سایہ میں چلے گئے ہیں۔ ان کی سرپرستی کو عملا قبول کرلیا ہے ۔ یہ اقتدار کیلئے ان کی ہوس ہے جس نے انہیں نریندرمودی کی چھتر چھایہ میں جانے پر مجبور کیا ہے جبکہ یہ وہی نریندر مودی تھے جنہوں نے بہار انتخابات کے دوران نتیش کمار کے ڈی این اے پر سوال کیا تھا اور اس وقت اس سوال پر نتیش کمار جذباتی ہوگئے تھے ۔
نتیش کمار نے ڈی این اے پر سوال کو فراموش کردیا تو دوسری جانب بی جے پی نے بھی اپنے صدر امیت شاہ کے اس ریمارک کو فراموش کردیا کہ اگر بہار میں نتیش کمار جیت جاتے ہیں تو پاکستان میں خوشیاں منائی جائیں گی اور پٹاخے چھوڑے جائیں گے ۔ اب دونوں ہی اپنی اپنی سہولت کیلئے سابقہ باتوں کو فراموش کرچکے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں تو الگ ہیں لیکن نتیش کمار نے ملک کے سکیولر ازم سے ہی کھلواڑ کردیا ہے ۔ وہ چار سال کی دوری کے بعد دوبارہ این ڈی اے میں ایسے وقت میں واپس ہوئے ہیں جب یہ امیدیں پیدا ہونے لگی تھیں کہ نتیش کمار ملک میں اپوزیشن اتحاد کے نقیب بن سکتے ہیں۔ انہوں نے ایک وسیع تر کاز کو اپنے ذاتی مفاد اور اقتدار کیلئے قربان کردیا ہے ۔ انہوں نے بی جے پی کے خلاف دئے گئے عوامی ووٹ کی توہین کرتے ہوئے بی جے پی کو پچھلے دراوزے سے اقتدار دلانے میں اہم رول ادا کیا ہے اور یہ رول قابل مذمت ہے ۔