نتیش کمار‘ اصولوں کی سیاست قربان

اور کیا دیتا تمہیں وہ
زخم کو مرہم بہت ہے
نتیش کمار‘ اصولوں کی سیاست قربان
جنتادل یو کے لیڈر نتیش کمار نے ایک بار پھر آج چیف منسٹر بہار کی حیثیت سے حلف لے لیا ۔ انہوں نے کل ہی راشٹریہ جنتادل اورکانگریس کے ساتھ اتحاد کو ختم کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفی دیدیا تھا اور اس کے چند منٹوں کے اندر اندر انہیں وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی کی تائید حاصل ہوگئی تھی ۔ آج انہوں نے بی جے پی کی تائید سے ریاست میں نئی حکومت قائم کرلی اور گذشتہ 20 ماہ سے جو سشیل کمار مودی نتیش کمار کی حکومت اور ان پر تنقیدیں کر رہے تھے انہیں اپنا ڈپٹی چیف منسٹر بنادیا ۔ یہ سب کچھ اقتدار کیلئے ہوا ہے اور نتیش کمار نے سکیولر ازم اور اصولوںکی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرقہ پرستوں کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اپنی بدترین موقع پرستی کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ ایسا نہیںہے کہ نتیش کمار کی آر جے ڈی اور کانگریس سے دوری اچانک اور اتفاق سے ہوگئی ہو ۔ یہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہوا ہے اور نتیش کمار اس کی تیاریاں گذشتہ عرصہ سے کر رہے تھے ۔ جس وقت وزیر اعظم نریندرمودی نے گذشتہ سال نومبر میں نوٹ بندی کا اعلان کیا تو وہ غیر بی جے پی اقتدار والی ریاست کے پہلے چیف منسٹر تھے جنہوں نے اس اقدام کی ستائش کی تھی اور حمایت کا اعلان کیا تھا ۔ جی ایس ٹی پر بھی نتیش کمار نے سب سے پہلے حکومت کی تائید کی تھی اور پھر حالیہ عرصہ میں جب صدارتی انتخاب کا مسئلہ آیا تو نتیش کمار نے کانگریس اور آر جے ڈی کی تائید سے حکومت چلانے کے باوجود بی جے پی کے امیدوار رام ناتھ کووند کی تائید کی جو اب ملک کے صدر جمہوریہ منتخب ہوچکے ہیں۔ یہ سب کچھ اچانک ہونے والی تبدیلیاں نہیںہیں بلکہ نتیش کمار ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندرمودی اور بی جے پی کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس چکے ہیں اور انہوں نے بی جے پی کو اس کے کٹر اور مستقل حریف لالو پرساد یادو کو نشانہ بنانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ انہیںشائد لگتا ہے کہ وہ بی جے پی کی قربت حاصل کرتے ہوئے اپنے اقتدار کو مزید مستحکم کرپائیں گے ۔ تاہم یہ سب کچھ ریاست کے عوام کے فیصلے کی مخالف ہے ۔ بہار کے عوام نے بی جے پی کے خلاف ایک موثر متبادل کے حق میں اپنا ووٹ دیا تھا اور نتیش کمار نے عوام کی رائے کو خاطر میںلائے بغیر بی جے پی سے اتحاد کرلیا ہے ۔
نتیش کمار نے ادعا کیا ہے کہ انہوں نے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے اور آر جے ڈی و کانگریس سے دوری اصولوں کی سیاست کی وجہ سے ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ نتیش کمار نے خود اپنے معلنہ اصولوںکو بالائے طاق رکھ دیا ہے ۔ 2013 میں نریندر مودی کو این ڈی اے کا وزارت عظمی امیدوار بنائے جانے پر انہوں نے این ڈی اے سے یہی کہتے ہوئے دوری اختیار کی تھی کہ ہم اپنے اصولوںسے انحراف نہیں کرسکتے ۔ اس کے بعد جب بہار میںاسمبلی انتخابات ہوئے نریندرمودی نے نتیش کمار کے ڈی این اے پرسوال کیا تھا اورا س وقت نتیش کمار بہت زیادہ چراغ پا ہوگئے تھے ۔ انہوں نے کانگریس اور آر جے ڈی کی تائید حاصل کرتے ہوئے ریاست میں عظیم اتحاد قائم کیا اور اس اتحاد نے بی جے پی کو انتخابات میںچاروں شانے چت کردیا تھا ۔ شائد یہی وہ وقت تھا جب بی جے پی نے اس عظیم اتحاد کو مستقبل میں پنپنے سے روکنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔بہار انتخابات کے بعد نتیش کمار نے شراب بندی کے مسئلہ پر ملک بھر میں بی جے پی کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا تھا لیکن کسی وجہ کے اظہار کے بغیر وہ اس پر خاموش ہوگئے ۔ انہوں نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں سکیولر طاقتوں کی تائید سے گریز کیا اور پھر کھلے عام بی جے پی اور وزیر اعظم کے فیصلوں کی تائید کرنے لگے ۔ یہ سب کچھ نتیش کمار کی اصولوںکو قربان کردینے کی مثالیں ہیںا ور اب وہ خود اصولوں کی دہائی دینے لگے ہیں۔
نتیش کمار کے بیانات بہار کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہیں۔ یہ ایساعمل ہے جس کے ذریعہ وہ ا پنا اقتدار تو مستحکم کرسکتے ہیں لیکن وہ عوام کا زندہ ضمیری کے ساتھ سامنا نہیںکرپائیں گے ۔ گذشتہ دیڑھ سال سے زیادہ عرصہ سے بی جے پی کے ریاستی قائدین اور خاص طور پر سشیل کمار مودی ان پر تنقیدیں کرتے نہیں تھکتے تھے لیکن اب دونوں ہی اپنی اپنی کرسی کیلئے ایک دوسرے کی تائید حاصل کرنے اور دوسرے کو تائید فراہم کرنے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ بہار میں پیش آنے والے حالات در اصل 2019 کی تیاری ہے جب بی جے پی قومی سطح پر کسی طرح کے قومی اتحاد کے ابھرنے کو روکنا چاہتی ہے ۔ نتیش کمار اسی جال میںپھنس چکے ہیں۔وہ فرقہ پرستوں کے ہاتھ میں ایک بار پھر کٹھ پتلی بن گئے ہیں۔ اس سے قومی سطح پر سکیولر ازم کو جو نقصان ہوگا اس کو نتیش کمار خاطر میں لانے کیلئے تیار نہیںہیں۔ ان کے سامنے صرف اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار ہے اور یہ ایک اصول پسند سیاستدان کی علامت ہرگز نہیںہوسکتی ۔