’ناکام‘ نوٹ بندی پر وزیراعظم مودی کو کیا سزا دی جائے: شیوسینا

ممبئی 31 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) آر بی آئی کی اِس رپورٹ کے تناظر میں کہ تنسیخ شدہ نوٹوں کا 99.3 فیصد حصہ بینکنگ سسٹم میں واپس آچکا ہے، شیوسینا نے آج جاننا چاہا کہ وزیراعظم نریندر مودی ملک کو نوٹ بندی کے ذریعہ ’مالی افراتفری‘ میں جھونک دینے کی پاداش میں کیا سزا پائیں گے۔ سینا نے کہاکہ نوٹ بندی سے معیشت کو بھاری نقصانات پہونچے ہیں، صنعت متاثر ہوگئی، روپئے کی قدر آزادی کے بعد سے اقل ترین سطح تک پہونچ گئی اور زائداز 100 افراد اپنی جان گنوا بیٹھے، پھر بھی ملک کے حکمران اِس اقدام کے تعلق سے شیخی بگھار رہے ہیں۔ سینا نے پارٹی ترجمان ’سامنا‘ کے اداریہ میں آج استفسار کیاکہ چونکہ نوٹ بندی نے ملک کو مالی نراج میں ڈھکیل دیا ہے اِس لئے وزیراعظم نریندر مودی ملک سے کئے گئے اپنے وعدے کے مطابق کیا سزا پائیں گے۔ نوٹ بندی کی کارروائی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کی گئی۔ ادھو ٹھاکرے زیرقیادت پارٹی مودی کی اُس تقریر کا حوالہ دے رہی ہے جو اُنھوں نے گوا میں نومبر 2016 ء میں کی تھی جہاں اُنھوں نے عوام سے 50 دن (30 ڈسمبر تک) تعاون کرنے کی اپیل کی تھی اور اگر اُن کے ارادے غلط ثابت ہوں تو کہا تھا کہ اُنھیں سزا قبول ہوگی۔

’’میں نے صرف پچاس دن مانگے ہیں۔ مجھے 30 ڈسمبر تک وقت دیجئے۔ اِس کے بعد اگر میرے ارادوں یا میرے اقدام میں کوئی خامی پائی جائے تو میں ملک کی جانب سے دی جانے والی کوئی بھی سزا بھگتنے تیار ہوں‘‘۔ سینا نے کہاکہ نوٹ بندی سے ملک کو صرف پریشانی ہوئی ہے۔ چنانچہ ملک کی معیشت سے متعلق فیصلے عجلت میں نہیں کئے جانے چاہئے۔ نوٹ بندی نے ملک کی معیشت کا کچومر نکال دیا۔ ریزرو بینک نے بھی اِس بات کی توثیق کردی ہے۔ مودی نے کہا تھا کہ نوٹ بندی کا مقصد کرپشن، کالا دھن اور جعلی نوٹوں کو مستقل طور پر ختم کرنا ہے تاہم اِن تمام چیزوں میں گزشتہ دو برسوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ ایسے دعوے کہ نوٹ بندی سے کشمیر میں دہشت گردانہ سرگرمیاں کم ہوجائیں گی اور وادی میں امن قائم ہوجائے گا یہ بھی کھوکھلے ثابت ہوئے ہیں۔ مزید یہ کہ کالا دھن اور جعلی کرنسی کا پتہ نہیں چلایا جاسکا کیوں کہ بینکنگ سسٹم میں 99.3 فیصد کرنسی واپس آئی ہے۔ بی جے پی کی ناراض حلیف جماعت نے یہ بھی کہاکہ نوٹ بندی کے بعد دو مہینوں تک بینکوں کے باہر عوام قطاروں میں کھڑے رہے، چھوٹی صنعتوں کو نقصان پہونچا، امکنہ اور سرویس سیکٹر تباہ ہوگئے، کسانوں کو ناقابل بیان پریشانیوں کا سامنا ہوا ہے۔ شیوسینا نے کہاکہ اُن قطاروں میں زائداز 100 افراد کی جان گئی اور نوٹ بندی کے سبب 70 برس میں روپئے کی قدر اپنی اقل ترین سطح تک پہونچ گئی۔ اِس اقدام سے معیشت بُری طرح لڑکھڑا گئی۔ سرکاری خزانے کو نئے نوٹوں کی طباعت کے لئے 15 ہزار کروڑ روپئے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ مزید 700 کروڑ روپئے اے ٹی ایمس کو نئی نوٹوں کے قابل بنانے کے لئے خرچ کئے گئے نیز 2 ہزار کروڑ روپئے نئی نوٹوں کی تقسیم پر خرچ ہوئے ہیں، یہ سب قومی معیشت کو نقصان ہی نقصان ہے۔