ناشائستہ ریمارکس اور وزیر اعظم

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
ناشائستہ ریمارکس اور وزیر اعظم
انتخابات کے موسم میں ہر سیاسی جماعت اور لیڈر کی جانب سے اپنے سیاسی مخالفین کو تنقیدوں کا نشانہ بنایاجاتا ہے اوراپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ عوام کو سبز باغ دکھاتے ہوئے گمراہ کرنے اور سیاسی روٹیاں سینکنے کی منصوبہ بندی بھی ہوتی ہے ۔ تاہم ہر جماعت میں اور خاص طور پر برسر اقتدار جماعت میں کچھ ذمہ دار قائدین ہوتے ہیں اور وہ سیاسی مخالفت میں بھی معیار کو نظر انداز نہیں کرتے اور اپنے ماتحت قائدین کی زبان اور لب و لہجہ پر بھی نظر رکھتی جاتی ہے ۔ ہندوستان میں تاہم ایسا لگتا ہے کہ معاملہ الٹا ہی ہے ۔ یہاں ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہی انتہائی ناشائستہ ریمارکس کرنے میں اپنی پارٹی کے نچلی سطح کے قائدین سے بھی آگے نکلتے ہوئے نظر آر ہے ہیں۔ ان کے ریمارکس اور تبصروں اور انداز کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان کے سامنے صرف اقتدار معنی رکھتا ہے ۔ اقتدار حاصل کرنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک گرسکتے ہیں۔ انہیں اخلاق و کردار اور معیارات و غیرہ کی کوئی پرواہ نہیں ہے ۔ وہ اپنے ماتحت قائدین کو ایسے معاملات میں کنٹرول کرنے اور ان کی سرزنش کرنے کی بجائے خود ان کیلئے ایک مثال بنتے جا رہے ہیں۔ وہ بھی مقامی سطح کے نا اہل قائدین کی سطح پر گرتے ہوئے دوسروں کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف اس بار انتخابات میں ایسی زبان اور غیر شائستہ ریمارکس کررہے ہیں ۔ انہوں نے اترپردیش اسمبلی کے انتخابات میں بھی جو ریمارکس کئے تھے وہ کم از کم وزیر اعظم ہندوستان کے عہدہ پر فائز شخص کو ذیب نہیں دیتے ۔ انہوں نے شمشان ۔ قبرستان ‘ دیوالی ۔ عید جیسے فرقہ پرستانہ ذہنیت کی عکاسی کرنے والے ریمارکس کئے تھے ۔ یہ ریمارکس ملک کے جلیل القدر عہدہ پر فائز شخص کو ذیب نہیں دیتے ۔ تاہم مودی کیلئے عہدہ کا وقار بھی معنی نہیں رکھتا ۔ صرف عہدہ کی فکر ہے اور اس پر برقراری کیلئے وہ کسی بھی نوعیت کے ریمارکس کرنے سے گریز نہیں کرتے ۔ یہ روایت ہندوستان کی جمہوریت کیلئے اچھی نہیں ہوسکتی ۔ یہاں اخلاق و روایات کی پاسداری کی اہمیت ہے اور انتخابی ماحول میں بھی اس کا لحاظ ضروری ہے ۔
سابقہ ریمارکس کے سلسلہ کو جاریہ انتخابات کی مہم میں بھی برقرار رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے اترپردیش میں سماجوادی پارٹی ۔ آر ایل ڈی ۔ اور بی ایس پی کے اتحاد کو شراب سے تعبیر کرنے کی کوشش کی اور عوام سے کہا کہ وہ شراب سے دور رہیں۔ یہ مخالفین کو نشانہ بنانے کی ایک افسوسناک مثال ہے ۔ مخالفین کو ان کی پالیسیوں ‘ عوامی مسائل کی یکسوئی ‘ مستقبل کے منصوبوںاور ملک و قوم کی بہتری کیلئے ان کی خدمات کو بنیاد بناتے ہوئے نشانہ بنایا جانا چاہئے ۔ مخالفین کے منصوبوں اور پالیسیوں میں نقص اور خامیاں نکالتے ہوئے نشانہ بنانا قابل قدر کام ہوسکتا ہے لیکن افوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے انتخابات میں پالیسیاں اور پروگرامس کہیںپس منظر میں چلے گئے ہیں۔ صرف جملے بازیاں ۔ مخالفین پر تنقیدیں اور رکیک حملے ہی انتخابی مہم کا اصل جز بن گئے ہیں۔ افسوس اس بات پر ہے کہ خود وزیر اعظم ایسی زبان اور ناشائستہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں جس کے استعمال سے ماتحت قائدین کو بھی روکنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یو پی میں جہاں ایس پی ۔ بی ایس پی اور آر ایل ڈی نے اتحاد کرلیا ہے اس سے بی جے پی کی صفوں میں بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی ہے ۔ یہ بوکھلاہٹ دوسرے قائدین کے تبصروں سے تو ظاہر ہی تھی لیکن اب اس کا اثر خود وزیراعظم پر ہونے لگا ہے اور وہ بھی نازیبا الفاظ کا استعمال کرنے اور غیرشائستہ زبان کے استعمال پر اتر آئے ہیں۔
انتخابات میں سیاسی مخالفت میں معیارات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ سیاسی اختلاف ہے اور یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے ۔ اس کو شخصی عناد اور مخاصمت کی بنیاد نہیں بنایا جانا چاہئے ۔ اختلاف کو اختلاف کی حد تک رکھا جانا چاہئے ۔ اس کو دشمنی کی شکل نہیں دی جانی چاہئے اور جو تنقیدیں ہوں وہ اصول و ضوابط پر مشتمل ہونی چاہئے ۔ محض تنقید برائے تنقید سے گریز کرنا چاہئے اور خاص طور پر شخصی اور رکیک الزامات یا تنقیدیں ہماری جمہوریت کیلئے اچھی علامت نہیں ہیں۔ اس سے خود وزیر اعظم کو اور ان کے تمام ماتحت قائدین کو گریز کرنا چاہئے ۔