نازک صورتحال اور سوشیل میڈیا

ناز ہے طاقت گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
نازک صورتحال اور سوشیل میڈیا
جس وقت سے سوشیل میڈیا نے عروج حاصل کیا ہے اس وقت سے کچھ موقعوں پر اس کے فائدے ہوئے ہیں لیکن حالیہ عرصہ میں دیکھنے میں آیا ہے کہ سوشیل میڈیا کو ایک ایسے ذریعہ کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے جس کے ذریعہ مفادات حاصلہ اپنے عزائم کی تکمیل کرسکتے ہوں۔ سوشیل میڈیا کی اہمیت سے آج کے اس ٹکنالوجی والے دور میں انکار کی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کی درست اور مثبت استعمال کیلئے یقینی طور پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے سوشیل میڈیا کے بیجا استعمال اور کثرت سے استعمال کی وجہ سے اس کے فائدوں سے زیادہ نقصانات ہونے لگے ہیں۔ خاص طورپر حساس نوعیت کے حامل ‘ اہم مسائل اور نازک صورتحال میں سوشیل میڈیا کے بہتر اور احتیاط سے استعمال کی ضرورت ہوتی ہے ۔ جس طرح کسی زمانے کہا جاتا تھا کہ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا اسی طرح سوشیل میڈیا پر پیش کیا گیا کوئی مسیج بھی واپس نہیں آتا ۔ حالانکہ آج کے دور میں ایسے مسیجس کو حذف کرنے کی گنجائش بھی فراہم ہوگئی ہے لیکن جب تک غلطی کا احساس ہو اور ایسے پیامات کو حذف کیا جائے اس وقت تک یہ پیامات اپنا اثر دکھاچکے ہوتے ہیں یا پھر سماج کے ایک بڑے حصے اور خاص طور پر نوجوانوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرچکے ہوتے ہیں ۔ فی الحال سارا ہندوستان ایک نازک وقت سے گذر رہا ہے ۔ پلواما میں ہوئے دہشت گردانہ حملے پر سارا ملک مغموم ہے اور برہم بھی ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہوتی ہے جب جذبات کا غلبہ ہوتا ہے ایسی صورتحال میں خاص طور پر سوشیل میڈیا کے استعمال کے تعلق سے ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ سوشیل میڈیا پر پیامات ‘ تصاویر یا ویڈیو ز پیش کرنے میں پوری احتیاط برتنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ حالات سدھرنے کی بجائے بگڑنے نہ لگ جائیں۔ ایک غلط یا اشتعال انگیز پیام عوام کے جذبات کو ابھار کر حالات کو بگاڑنے کا موجب ہوسکتا ہے ۔ اس کی ماضی میں کئی مثالیں موجود ہیں۔ خاص طور پر گئو دہشت گردوں نے سوشیل میڈیا پر قدیم ویڈیوز پیش کرتے ہوئے کئی لوگوں کو زد و کوب کا نشانہ بنایا ہے ۔ پلواما حملے کی وجہ سے سارے ملک میں غم کی فضا ہے ۔ عوام میں غصہ اور برہمی ہے اور ہونا بھی چاہئے ۔ دہشت گرد ہمارے جوانوں کو موت کی نیند سلارہے ہیں اور اس پر برہمی فطری بات ہے ۔ اسی فطری برہمی اور جذبات کو دیکھتے ہوئے کچھ گوشوں کی جانب سے اس پر اشتعال انگیز مواد پیش کیا جا رہا ہے ۔ کچھ گوشوں کی جانب سے نفرت انگیز مہم بھی چلائی جا رہی ہے ۔ یہ سب کچھ صورتحال کے استحصال کے مترادف ہے ۔ ایسا کرنے سے ہر ذی فہم اور ذمہ دار شہری کو گریز کرنے کی ضرورت ہے ۔ اشتعال انگیزی یا غیر ذمہ دارانہ پوسٹس کے ذریعہ ہم خود ان دہشت گردوں کے ہاتھوں کھلونا بننے سے گریز کریں جو ملک میں بدامنی اور بداطمینانی کی کیفیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ سارا ملک اپنے شہیدوں کا سوگ منارہا ہے اور ان کی یاد میں متحد ہے ایک معمولی سی اشتعال انگیزی بھی گوارا نہیں کی جانی چاہئے ۔ کچھ گوشے یقینی طور پر صورتحال کا استحصال کرنے میں جٹ گئے ہیں اور اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے غلط پیامات کے ذریعہ اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خود جو جوان شہید ہوئے ہیں ان کی فرضی تصاویر کو سوشیل میڈیا پر پیش کیا جا رہا ہے جس سے جذبات میں اشتعال پیدا ہوسکتا ہے ۔ خود سی آر پی ایف نے ایسی تصاویر کے خلاف وضاحت جاری کی ہے اور کہا کہ اس سے گمراہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ حکومت اور نفاذ قانون کی ایجنسیوں کی جانب سے سوشیل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھے جانے کے باوجود ایسے عناصر سرگرم ہیں جو سوشیل میڈیا کا بیجا اور غلط استعمال کرتے ہوئے ملک میں حالات کے بگاڑ کا موجب بن رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ایسے عناصر کے خلاف اقدامات کئے جائیں اور انہیں سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنے مفادات کی تکمیل سے روکا جائے بلکہ سارے ملک کے عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں سوشیل میڈیا کے مثبت اور ذمہ دارانہ استعمال کے تعلق سے شعور بیدار کیا جائے ۔ اگر ہمارے نوجوان اور سارے عوام اس تعلق سے باشعور ہوجاتے ہیں اور اس کی اہمیت و ذمہ داری کو سمجھنے لگتے ہیں تو پھر ہم ان عناصر کو شکست دے سکتے ہیں جو ملک کا امن درہم برہم کرنا چاہتے ہیں۔