نئے ہندوستان کانعرہ

کوئی یکجہتی کا منظر دیکھتا برسات میں
قطرہ قطرہ مل کے آخرکار اک دریا ہوا
نئے ہندوستان کانعرہ
وزیر اعظم نریندر مودی نے اب ملک کے عوام کو گمراہ کرنے کیلئے ایک نیا نعرہ دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ پانچ سال میں یعنی 2022 تک نیا ہندوستان بنانا چاہتے ہیں۔ انہو ں نے اس نئے ہندوستان کے نعرہ کی تفصیلات تو نہیں بتائیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اس نعرہ کی اب اس انداز سے تشہیر ہونے لگی ہے کہ لوگ اس کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ نعرہ در اصل ملک کے عوام کو گمراہ کرنے اور اپنی حکومت کی سابقہ ناکامیوں سے ان کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے ۔ مودی اور ان کے ساتھیوں نے 2014 کے عام انتخابات سے قبل ملک کے عوام کو اچھے دن لانے کا خواب دکھایا تھا ۔ اچھے دن کے نعرہ پرساری سیاست کی گئی ۔ ساری انتخابی مہم چلائی گئی ۔ عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی گئی ۔ انہیں پندرہ لاکھ روپئے اکاونٹ میں فراہم کرنے کا جھانسہ دیا گیا اور ان کے ووٹ حاصل کرلئے گئے ۔ نریندر مودی اور بی جے پی کے دوسرے تمام قائدین نے وعدہ کیا تھا کہ ملک کے نوجوانوں کو سالانہ دو کروڑ روزگار فراہم کئے جائیں گے ۔ مودی نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ عوام نے کانگریس کو 60 سال حکمرانی کا موقع دیا ہے اور انہیں صرف 60 ماہ حکمرانی کا موقع دیا جائے اور وہ ملک کی صورت بدل کر رکھ دیں گے ۔ تاہم اب نریندر مودی حکومت اپنی معیاد کا نصف سے زیادہ حصہ ختم کرچکی ہے اور اس کا ہر گذرتا دن معیاد کے اختتام کی سمت لیجا رہا ہے لیکن حکومت ا ٓج بھی یہ بتانے کے موقف میں نہیں ہے کہ اس نے کتنے کروڑ روزگار اس ملک کے نوجوانوں کو فراہم کئے ہیں۔ حکومت یہ جواب دینے سے بھی قاصر ہے کہ جن ہاتھوں میں قلم تھمانے کا وعدہ کیا گیا تھا ان ہاتھوں میں جھاڑوو تھمانے کے نتائج کیا بر آمد ہوئے ہیں۔ حکومت نے اچھے دن کے وعدہ کو اور کالا دھن واپس لانے کے وعدہ کو نہ صرف فراموش کردیا بلکہ ان وعدوں کو محض انتخابی جملے قرار دیتے ہوئے اس ملک کے عوام کی اکثریت کی سادہ لوحی کا مذاق اڑایا ہے ۔ بی جے پی نے جو انتخابی منشور جاری کیا تھا اقتدار حاصل کرنے کے بعد اس کے برخلاف ہی اس نے کام کئے ہیں۔ اس نے ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے اور کالا دھن واپس لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اس نے نوٹ بندی کے ذریعہ ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی ہے ۔ کالا دھن باہر سے تو کیا واپس لایا جاتا ملک کے عوام کے پاس جو کچھ محنت کی کمائی کی جمع بندی تھی اس کو بھی عوام سے چھین کر بینکوں کی نذر کردیا گیا ہے اور دم توڑتے بینکوں کو نئی زندگی فراہم کی گئی ہے ۔
نریندر مودی کی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک کے عوام واقعی اچھے دنوں کی امید کر رہے تھے ۔ یہ ان کی سادہ لوحی تھی ۔ اب یہی لوگ اچھے دن کے انتظار میں کتنے ہی صبر آزما دن گن کر گذار نے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ اس ملک کے کسانوں کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیںہے۔ یہاں شائد ہی کوئی دن ایسا گذرتا ہو جہاں کسان مسائل کی وجہ سے خود کشی نہیں کر رہے ہوں۔ زراعت ہندوستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود اس شعبہ کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے پوری حکومت چوکس ہے ۔ کارپوریٹ طبقہ کے ہزاروں کروڑ کے قرضہ جات معاف کئے جاتے ہیں اور کسانوں کو ان کی کاشت کی اقل ترین امدادی قیمت تک نہیں چکائی جاتی ۔ جو نوجوان روزگار کی آس لگائے بیٹھے تھے اب وہ سوائے کف افسوس ملنے کے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ جملہ گھریلو پیداوار کی شرح میں اصافہ کی بجائے انحطاط پیدا ہوگیا ہے ۔ وزیر اعظم نے ان گنت ممالک کے دورے کئے اور بیرونی سرمایہ کاری لانے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب تک حکومت یہ بتانے سے قاصر ہے کہ ان دوروں سے آخر حاصل کیا ہوا ہے اور کتنے لاکھ کروڑ کی بیرونی سرمایہ کاری ہندوستان آئی ہے ۔حکومت یہ بھی وضاحت کرنے کے موقف میں نہیں ہے کہ اس نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کتنی کمپنیاں اور کتنی فیکٹریاں قائم کی ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ حکومت کے اقدامات موجودہ عوامی شعبہ کے اداروں کو خانگی شعبے کے حوالے کرنے کی سمت میں کئے جا رہے ہیں۔
ان حالات میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نئے ہندوستان کی تعمیر کا وعدہ بھی محض ایک انتخابی جملہ ہے اور یہ آئندہ انتخابات کی تیاریوں کا آغاز ہے ۔ اس کا مقصد سابقہ نعرے اچھے دن کو عوام کے ذہنوں سے فراموش کردینے اور انہیں پھر ایک نئے جال میں پھانسنے کی کوشش ہے ۔ جب تک حکومت اپنے سابقہ وعدوں اور نعروں کی حقیقت اور سچائی بیان نہیں کرتی اس وقت تک اس کے نئے نعروں اور نئے وعدوں پر کوئی بھروسہ اور یقین نہیں کیا جاسکتا ۔ ہندوستان کے عوام سادہ لوح ضرور ہیں لیکن انہیں ایک سے زیادہ مرتبہ بیوقووف بنانے اور گمراہ کرنے کی کوششوں کو وہ آسانی سے قبول نہیں کرینگے اور نہ وہ ایسا کرنے کو تیار ہیں۔
شمالی ریاستوں میں سیلاب کی تباہ کاریاں
ملک کی شمالی ریاستوں اور خاص طور پر اترپردیش کے بیشتر اضلاع اور بہار میں سیلاب نے بے تحاشہ تباہی مچائی ہے ۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ درجنوں افراد زندگی سے محروم ہوگئے ہیں اور عوام کا مالی نقصان بھی بہت زیادہ ہے ۔ جن ریاستوں میں سیلاب نے تباہی مچائی ہے وہاں یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سیلاب کی وجہ سے تباہی آئی ہے ۔ یہ ہر سال آنے والی تباہی ہے اور ہر سال اس میں بڑے پیمانے پر تباہی آتی ہے اور عوام اس کو جھیلنے پر مجبور ہیں۔ حکومتوں کا جہاں تک سوال ہے وہ صرف زبانی جمع خرچ یا سیلاب کے ایام میں فضائی دورے اور معائنے کرتے ہوئے کچھ امداد کا اعلان کرتی ہیں اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوجاتی ہیں۔ یہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور اس کا حل دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ آفات سماوی کو ٹالا نہیں جاسکتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر اس کیلئے قبل از وقت احتیاط برتی جائے اور اس کے تدارک کے اقدامات کئے جائیں تو نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے ۔ کم از کم انسانی جانوں کے اتلاف سے بچنے کی کوشش ضرور کی جانی چاہئے ۔ مالی نقصانات بھی ٹالنے کی کوشش کی جانی چاہئے کیونکہ جن علاقوں میں سیلاب نے تباہ کاریاں مچائی ہیں یا مچاتے رہے ہیں وہاں کے عوام انتہائی غریب اور مفلوک الحال ہیں۔ ان کا گذر بسر معمولی سی آمدنی یا زراعت پر منحصر رہتا ہے اور اس سے حکومتیں بھی واقف ہیں۔ چاہے مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومتیں ہوں انہیں سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھتے ہوئے اس کے تدارک کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔ حکومتیں اپنی کوششوں سے سیلاب کو تو نہیں روک سکتیں لیکن وہ اس کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کی کوشش ضرور کرسکتی ہیں اور انہیں ایسا کرنا چاہئے ۔ سیلاب کے بعد محض دورے کرنے اور امداد کا اعلان کرتے ہوئے حکومتیں بری الذمہ نہیں ہوسکتیں۔