نئے صدر جمہوریہ رامناتھ کووند

چراغ دل جو بھڑکتا ہے تیرے آنے سے
بجھی بجھی سی طبیعت دکھائی دیتی ہے
نئے صدر جمہوریہ رامناتھ کووند
سیکولر ہندوستان کے نئے صدر جمہوریہ کی حیثیت سے این ڈی اے امیدوار رام ناتھ کووند کی حلف برداری اور اعلیٰ ترین دستوری مقام پر آر ایس ایس نظریات کے حامی شخصی کی جانشینی نے سیکولر حلقوں میں ایک طرف عدم اطمینان پیدا کردی ہے تو دوسری طرف سنگھ پریوار کے حلقوں میں رام ناتھ کووند کے انتخاب اور صدر جمہوریہ بن جانے پر خوشی ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی نظریاتی لیڈر شیام پرساد مکرجی کی جانب سے شروع کردہ سفر میں ایک غیر معمولی ’ سنگ میل ‘ قرار دیا جارہا ہے ۔ ملک کے 14 ویں صدر رامناتھ کووند نے دستور ہند کی پاسداری اور اس کے تقدس کا احترام کرتے ہوئے تمام شہریوں کی خدمت کا حلف لیا ہے ۔ بی جے پی نظریات کو آگے بڑھانے کی امید رکھنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے رامناتھ کووند کی حلف برداری تقریب سے کچھ دیر قبل بی جے پی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں اپنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے ایک سیکولر ہندوستان کی شبہہ کو آگے چل کر کیا شکل دی جائے گی اس کا اشارہ ملتا ہے ۔ شیام پرساد مکرجی نے اپنے نظریات کو فروغ دینے کے لیے جس سفر کا آغاز کیا تھا اس میں لاکھوں افراد کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے کووند کے صدر بن جانے پر غیر معمولی کامیابی سے تعبیر کیا ۔ شیام پرساد مکرجی نے 1951 میں پارٹی کے بانی جن سنگھ کے عکس کے ساتھ بنیاد ڈالی تھی ۔ وزیراعظم مودی کا بیان غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے ۔ چونکہ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے رامناتھ کووند کا تقرر پہلے بی جے پی لیڈر کی حیثیت سے اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا ہے ۔ صدر جمہوریہ کی دلت شناخت اور ان کی ملک کے تعلق سے مخلصانہ خدمات کے عوض یہ عہدہ ملنے کا ادعا کرنے والے بی جے پی قائدین نے ملک کی ترقی عوام کی بہبود ، سماجی ہم آہنگی اور اچھی حکمرانی کے جذبہ کے ساتھ یہ اقرار تو کیا ہے کہ صدر جمہوریہ اور مرکزی حکومت مل کر عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کی کوشش کریں گے ۔ لیکن آر ایس ایس کے سینئیر قائدین کے ماضی کے بیانات اور دستور پر اٹھائے گئے سوالات کے ساتھ دستور کو تبدیل کرنے کی باتوں نے سیکولر ہندوستان کے عوام کے ذہنوں میں ایک نئی فکر پیدا کردی ہے ۔ اگرچیکہ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے رامناتھ کووند نے دستور پر ہونے والے اس طرح کے حملوں کو روکنے کا عہد کیا ہے اور دستور کو مسخ کرنے کی خلاف تحفظ دینے کا بھی وعدہ کیا ہے ۔ پہلے دلت صدر جمہوریہ کے آرنارائنن کے دور کو ملاحظہ کرتے ہوئے اگر رامناتھ کووند اپنی دستوری ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہیں تو یہ ایک خوش آئند بات ہوگی ۔ سابق دلت صدر جمہوریہ نارائنن اب کووند کے لیے ایک رول ماڈل ہوسکتے ہیں لیکن ان کی سماجی شناخت انہیں اس جلیل القدر عہدہ کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں حائل ہوتی ہیں تو پھر آئندہ کی صورتحال پر ملک کے سیکولر عوام کو گہری نظر رکھنی پڑے گی ۔ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد رامناتھ کووند خالص سیکولر ہندوستان اور اس دستور کے آئین محافظ بن چکے ہیں اور انہیں پورے جذبہ و اخلاص کے ساتھ دستور ہند کی پاسداری کرنی ہوگی ۔ لیکن انہوں نے حلف برداری کے بعد کی گئی تقریر میں جئے ہند کے بجائے وندے ماترم کہہ کر اپنے نظریہ کو آشکار کردیا ہے ۔ ہر صدارتی دور میں کبھی نہ کبھی ایک نازک دور آتا ہے اس میں جلیل القدر عہدہ پر فائز شخصیت کو دستور ہند کے مطابق قدم اٹھانے میں پس و پیش نہیں کرنا پڑے گا ۔ اگر رامناتھ کووند کو دستور ہند اور سیکولر ہندوستان کے اصولوں کے مطابق کام کرنے کی کھلی اجازت ملتی ہے تو وہ بلا شبہ اپنے دستوری فرائض کو بخوبی انجام دیں گے ۔ اگر آر ایس ایس نظریات نے ان کے ہاتھ باندھنے کی کوشش کی تو پھر دستوری عہدہ سے تقدس کو پامال کرنے والے واقعات رونما ہوسکتے ہیں ۔ رامناتھ کووند کو اپنے پیشرو صدور کے نقش قدم پر چلنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہوتی ہے تو یہ اچھی بات ہوگی ۔ اس ملک کے امن ، خوشحالی اور ترقی اور تمام عوام کے لیے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا دستوری عہدہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ وہ اپنی صلاحیتوں اور تجربہ کے ذریعہ اس ملک کے دستور اور قانون کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ ان کی قیادت میں ہندوستان اپنی عظیم تر روایات کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے روشن مستقبل کی بلندیوں کو چھونے میں کامیاب ہوگا ۔ صدر جمہوریہ کی حیثیت سے انہیں اس ملک کی اقلیتوں کے تحفظ کے لیے آگے آنا ہوگا ۔ گاؤ رکھشا کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کی روک تھام کو یقینی بنانا ہوگا ۔ ہندوستان میں دلتوں ، مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملے عام بات ہوگئی ہے ۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے رامناتھ کووند اگر اپنے دستوری فرائض سے غفلت اختیار نہیں کریں گے تو سیکولر ہندوستان اور دستور پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ۔۔