نئی حکومت آنے کے بعد …

میرے اپنے لفظ اور لہجے کی اک تہذیب ہے
جس کے اندر پل رہا ہے ایک ستھرا انقلاب
نئی حکومت آنے کے بعد …
تلنگانہ میں نئی حکومت کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کا مسئلہ مہاراشٹرا کے حالیہ مراٹھا کوٹہ کے خطوط پر مرکزی حکومت کے سامنے نمایاں موضوع بن سکتا ہے۔ بشرطیکہ تلنگانہ کی منتخب ہونے والی حکومت ریاستی اسمبلی کی جانب سے منظورہ قرارداد پر مرکز کی مہر لگانے کی کوشش کرے۔ مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے اگر مہاراشٹرا کے مراٹھا کوٹہ قرارداد کو منظور کردیا تو پھر تلنگانہ اور آندھراپردیش کی حکومتوں کو زریں موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ بھی اپنی پالیسیوں کو روبہ عمل لانے کیلئے مرکز سے منظوری حاصل کرنے کی کامیاب کوشش کریں۔ اس لئے مرکز پر دباؤ بنائے رکھنا ضروری ہے۔ تلنگانہ اسمبلی میں ٹی آر ایس حکومت نے 12 فیصد کوٹہ کیلئے قرارداد منظور کی تھی جبکہ آندھراپردیش اسمبلی نے کاپو طبقہ کیلئے 5 فیصد کوٹہ فراہم کرنے قرارداد منظور کیا ہے۔ یہ دونوں قراردادیں مراٹھا کوٹہ کے تابع پیشرفت کرسکتی ہیں۔ حکومت مہاراشٹرا نے حال ہی میں مراٹھا طبقہ کو 16 فیصد کوٹہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اب دونوں تلگو ریاستوں کی نظریں مرکز پر مرکوز ہونا لازمی ہے کیونکہ مرکز نے مہاراشٹرا کی کوٹہ پالیسی پر اپنی مہر ثبت کردے تو تلنگانہ کو بھی یہ حق حاصل ہوتا ہیکہ وہ مسلمانوں کو فراہم کئے جانے والے 12 فیصد تحفظات کی قرارداد کو منظوری دیدی ساتھ ہی آندھراپردیش کی کاپو طبقہ کے حق میں منظورہ قرارداد کو بھی اسے فوری منظور کرنے کیلئے مرکز کو قانونی طور پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ اب تلنگانہ میں نئے انتخابات ہوئے ہیں اور آنے والی حکومت کا فرض بنتا ہیکہ وہ اپنی پیشرو حکومت کی 12 فیصد تحفظات پالیسی کو پوری دیانتداری سے روبہ عمل لائے اور مرکز کی رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے قانونی، سیاسی اور عوامی دباؤ کو یقینی بنانے کارگذار چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے تحفظات کے حصول کیلئے مرکز سے نمائندگی کا دعویٰ ضرور کیا مگر اس کیلئے مرکز پر سیاسی دباؤ نہیں ڈالا۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران تحفظات کے تعلق سے مرکز کے رویہ کی شکایت کرتے ہوئے اپنی حکومت کی مجبوریوں کا ایک سے زائد مرتبہ تذکرہ کرکے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن اب مہاراشٹرا کوٹہ نے تلنگانہ کے 12 فیصد کوٹہ کو منظور کرانے کی راہ ہموار کردی ہے۔ مرکز کے پاس منظوری کیلئے آنے والے مہاراشٹرا مراٹھا کوٹہ قرارداد ایک اہم مؤثر ثابت ہوگی۔ یہ قرارداد مرکز کی دیانتداری کا بھی ثبوت ثابت ہوگی۔ اگر کوٹہ پالیسی کے تعلق سے مرکز کی پالیسی یکساں رہتی ہے تو وہ مہاراشٹرا کے کوٹہ کو منظور کرنے کے ساتھ تلنگانہ کے تحفظات مسئلہ کو بھی حل کرے گی۔ اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو اس کی سیاسی بدنیتی آشکار ہوگی اور امکان غالب ہیکہ مرکز اپنی سیاسی بدنیتی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کرے گا ایسے میں تلنگانہ کی نئی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ 12 فیصد تحفظات کے حصول کیلئے مرکز پر دباؤ برقرار رکھتے ہوئے عام انتخابات لوک سبھا سے قبل تحفظات کی قرارداد کو منظور کرالے لیکن ریاستی حکومت نے مرکز سے وفا کرنے کی سیاست پر گامزن رہنے کو ترجیح دے کر اپنی ہی اسمبلی کی قرارداد کو غیر اہم کردیا۔ تلنگانہ کے مسلمانوں نے اس وقت خاموشی سے اپنا ووٹ دیا ہے لیکن اس خاموش رہنے کو کوئی کمزوری نہ سمجھی جائے کیونکہ مسلمانوں کی خاموشی ایک سمندر کی طرح ہے جو بولا نہیں کرتی۔ مسلمانوں کے ووٹوں کا حاصل ہونا سیاسی پارٹیوں کے لئے نعمت سے کم نہیں اس نعمت کا ملنا اب سیاسی پارٹیوں کیلئے آزمائش سے کم نہیں۔ منتخب پارٹی نے مسلم ووٹوں کے ملنے کا شکر کیا یا ناشکری کی اس کا اندازہ اس کی طرزحکمرانی اور تحفظات کی پالیسی کو یقینی بنانے سے ہوجائے گا۔ یہاں مسلمانوں کے ووٹوں کا افسوسناک پہلو یہ ہیکہ ان کے ہاتھوں سے ڈالے گئے ووٹوں میں ہمدردی کا عیب ہوتا ہے اس لئے وہ جس پارٹی کو ووٹ ڈالتے ہیں وہ پارٹی ان کی نہیں ہوتی۔ برسوں سے مسلمانوں نے اپنی ووٹ ڈالنے کی روش ہی نہیں بدلی ہے۔ اسی لئے وہ ووٹ دے کر ڈوبنے والوں کے جذبہ کو بھی بدلنا نہیں چاہئے۔ اب ایسا طرزعمل زیادہ دن نہیں چلنا چاہئے۔ مسلمانوں کو اپنے ووٹ کا حق حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کرنی ہوگی۔
بلند شہر کے واقعہ کو ’’حادثہ‘‘ قرار دینا غلط
اترپردیش کی سیاست کو نچلی سطح تک لے جانے کے تمام ریکارڈس کو توڑ دیا گیا ہے۔ چار دن قبل بلند شہر میں فرقہ پرستوں کی جانب سے منظم سازش کے ذریعہ فسادات بھڑکانے کی کوشش کو روکنے والے بہادر پولیس آفیسر کی ہلاکت کو چیف منسٹر یو پی ادتیہ ناتھ یوگی نے محض ایک ’’حادثہ‘‘ قرار دے کر معاملہ کی سنگینی کو دبانے کی کوشش کی ہے۔ سنگھ پریوار کے کارکنوں کے ہاتھ اس پولیس آفیسر سبودھ کمار سنگھ کے خون سے رنگ چکے ہیں۔ اس واقعہ کو خاموشی کے ساتھ دبادینے کی کوشش محکمہ پولیس کیلئے لمحہ فکر ہے خاص کر ان فرض شناس آفیسرس کیلئے جو اپنی ڈیوٹی دیانتداری سے انجام دیتے ہوئے ملک کے قانونی واقعات کو یقینی بناتے ہیں۔ یوپی کے مغربی علاقہ بلند شہر میں 3 ڈسمبر کو ایک بڑا فساد برپا کرنے کی سازش کو ناکام بنانے والے پولیس عہدیدار کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا۔ گائے کی ہڈیوں کے ایک ڈھانچہ کو جنگل میں درخت سے لٹکا کر اسے مسلمانوں کی جانب سے گاؤکشی کا الزام عائد کرکے امن کو درہم برہم کرنے کی سازش رچائی گئی تھی جو ناکام بنادی گئی۔ تبلیغی اجتماع کے موقع پر ایک بڑا فساد بھڑکانے کی سازش کرنے والوں کو جب سرکاری سرپرستی مل جائے تو کسی بھی ریاست، ٹاؤن اور ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ گجرات کے فسادات اس بات کا ثبوت ہیں کہ فرقہ پرست طاقتیں اپنے مقاصد کو بروئے کار لانے کیلئے کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں۔ انسانیت کو لہولہان کرنا ان کا مشغلہ بن چکا ہے۔ محکمہ پولیس نے اپنے ایک دیانتدار عہدیدار کی موت پر خاموشی اختیار کرلی جو افسوسناک بات ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ محکمہ پولیس اس واقعہ کے خلاف اپنا احتجاج درج کرواتا اور حکومت کی جانبداری کا ماتم کرتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے درپردہ یا علانیہ طور پر فرقہ پرستوں کی سرپرستی کی ہے۔ وی ایچ پی، بجرنگ دل اور بی جے پی یووا مورچہ کارکنوں کو کھلی چھوٹ دینے کی وجہ سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و امان کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اس حکومت میں انسانی جانوں کی کوئی قدر نہیں ہے اس لئے ہجومی تشدد کے واقعات میں اضافہ تشویشناک بات ہے۔