م60مہینوں کی کارکردگی

یہ دورِ بد حواسی ہے یہ عہدِ ناشناسی ہے
یہاں اب پوچھتا کوئی نہیں ہے علم اور فن کو
60 مہینوں کی کارکردگی
نریندر مودی نے 2014 کے عام انتخابات میں مہم کے دوران ملک کے عوام سے کہا تھا کہ انہوں نے کانگریس کو 60 سال دئے ہیں اور انہیں صرف 60 مہینے دئے جائیں ۔ ان پانچ سالوں میں وہ ملک کی حالت کو بدل کر رکھ دینگے ۔ اب جبکہ مودی اپنی معیاد مکمل کرچکے ہیںاور دوبارہ انتخابات کا عمل بھی اب اپنے اختتامی مراحل تک پہونچنے ہی والا ہے لیکن انہوں نے اب تک بھی اپنے 60 مہینوں کی کارکردگی کا عوام کے سامنے کوئی حساب کتاب پیش نہیں کیا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اگر کوئی ان سے ان کی کارکردگی پرسوال کرتا ہے تو اسے قوم مخالف یا ملک دشمن قرار دیدیا جاتا ہے اور دوسروں کی زبانیں بند کی جاتی ہیں۔ یہ جمہوریت کو کچلنے والا طریقہ کار ہے جسے بی جے پی اقتدار میں زیادہ تقویت اور استحکام حاصل ہوتا جا رہا ہے ۔ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے نام پر جمہوریت کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ اس کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جا رہا ہے اور اس کو مضحکہ خیز بنادیا جارہا ہے ۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ اب یہ تک بھی کہا جانے لگا ہے کہ اگر 2019 میں مودی کو کامیابی حاصل ہوجاتی ہے تو ملک میں آئندہ پھر انتخابات کی ضرورت ہی نہیں آن پڑیگی ۔ یہ جمہوریت کو ختم کرنے والا بیان ہے ۔ گذشتہ پانچ سال میں مودی نے جو کام کئے ہیں اس نے ملک کو تباہی کے دہانے پر ڈھکیل دیا ہے ۔ اس حکومت نے نوٹ بندی کرتے ہوئے ملک کی معیشت کی کمر توڑ دی ہے ۔ اس حکومت نے جی ایس ٹی کو کسی تیاری کے بغیر نافذ کرتے ہوئے چھوٹے تاجروں کی روزی روٹی بند کردی ہے ۔ اس نے حکومت نے جی ایس ٹی کے ذریعہ ہی بڑے تاجروں اور کارخانوں کو قفل ڈلوا دئے ہیں ۔ مودی حکومت نے گذشتہ پانچ سال کے دوران ملک میں بھگوڑے کارپوریٹ تاجروں کو پورا پورا موقع دیا ہے ۔ پہلے انہیں بینکوں سے ہزاروں کروڑ کے قرض دلوائے گئے اور پھر انہیں باضابطہ بیرونی ممالک کو فرار ہونے میں مدد فراہم کی گئی ۔ ملک سے فرار ہونے کے بعد باہر کی دنیا میں وزیر اعظم انہیں ساتھ لئے پھرتے رہے ۔ ان کے ساتھ تصویر کشی کرواتے رہے ۔ گذشتہ پانچ سال میں حکومت نے کچھ کیا ہے تو کسانوں کیلئے مسائل میں اضافہ کیا ہے ۔ ان سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کیا ہے ۔
گذشتہ پانچ سال میں نریندر مودی حکومت نے اگر کچھ کیا ہے تو ہندوستان میں ہجومی تشدد کو فروغ دیا ہے ۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اقلیتوں اور دلتوں کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کردینے کی ایک نئی روایت شروع کی ہے ۔ بی جے پی اور اس کے قائدین جب نئے ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو وہ شائد اسی روایت کا اشارہ دیتے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال میں بی جے پی حکومت نے کچھ کیا ہے توا س ملک کی یونیورسٹیوں کو داغدار بنانے کا کام کیا ہے ۔ جامعات میں اپنے نظریہ کو مسلط کرنے کیلئے آر ایس ایس کو کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے ۔ سنگھ کی ذہنیت رکھنے والوں کو جامعات کے نصاب کی تیاری اور وہاں کا ماحول پراگندہ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے ۔ گذشتہ پانچ سال میں اگر مودی حکومت نے کچھ کیا ہے تو اس نے سماج میں اور نوجوانوں میں زہر گھولنے اور فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کا کام کیا ہے ۔ اگر حکومت نے کچھ کیا ہے تو لوگوں کو گائے کے نام پر موت کے گھاٹ اتارنے والوں کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ ان کی گلپوشیاں کی گئی ہیں۔ اگر حکومت نے کچھ کیا ہے تو نوجوانوں کو روزگار دینے کی بجائے ان کے روزگار چھین لئے ہیں۔ آج ہندوستان میں بیروزگاری کی شرح گذشتہ 45 سال میں اب تک کی سب سے زیادہ ہوگئی ہے جبکہ حکومت نے ہر سال دو کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کیا تھا ۔ یہ وعدے بھی اچھے دن کی طرح جملہ بازی تک ہی محدود رہا ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں بھی مودی سے ان کے 60 مہینوں کی کارکردگی کا حساب نہیں مانگ رہی ہیں۔ اپوزیشن کے پاس اس کے اپنے ہی مسائل ہیں اور ایسے میں حکومت سے کوئی سوال نہیں ہو رہا ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حکومت سے سوال کریں۔ اس کے وعدے یاد دلائیں ۔ نریندر مودی سے ان کے 60 مہینوں کا حساب مانگیں اور ملک کے عوام کی توجہ اس جانب بھی مبذول کروائیں۔ حکومت اپنا حساب پیش کرنے کی بجائے نہرو ۔ گاندھی خاندان کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے ۔ راجیو گاندھی پر سوال ہو رہا ہے یا نہرو کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔یہ در اصل حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے اور اپوزیشن اپنی ذمہ داری کی تکمیل میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے ۔