میں اپنے ماضی کو مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتی ہوں‘ تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھوں گی۔سعدیہ شیخ

پونے ۔ پیر کے روز پونے شہر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعدیہ شیخ کہاکہ وہ جموں او رکشمیر ایک مقامی کالج میں داخلہ لینے کے لئے گئی تھی۔ یا درہے کہ یہ پونا شہرا کی وہی18سال کی سعدیہ شیخ ہے جس کو کشمیر خودکش بمبار کے شک میں جنوری26کے روز گرفتار کرلیاگیاتھا‘ سعدیہ نے کہاکہ’’ وہ اب پیچھے مڑ کر دیکھنا نہیں چاہتی ہے‘اور وہ اپنے چاہتی ہے کہ اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہے۔

خفیہ اداروں کی جانکاری پر جموں او رکشمیر پولیس نے پونے سے تعلق رکھنے والی سعدیہ اور ایک شخص کو گرفتار کیاتھا ‘ جو مبینہ طور پر وادی میں یوم جمہوریہ کے موقع پر خود کش بم دھماکہ کے لئے ائے ہوئے تھے۔ بعدازاں سعدیہ کو شواہد کی کمی کے سبب رہا کردیاگیا۔پونا میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سعدیہ نے کہاکہ وہ جموں اور کشمیر کے ایک مقامی کالج میں داخلہ لینے کے لئے گئی تھی۔

سعدیہ نے بتایا کہ’’ جب میں جموں او رکشمیرپہنچی ‘ وہاں پر مجھے اس بات کی خبر ملی کہ پونا شہر سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی وادی میں خودکش دھماکے کے لئے پہنچی ہے۔ اس خبر کے پونے پولیس نے اپنے والدین سے رابطہ کیا۔

میرے گھر والوں نے مجھ سے کہاکہ یا تو پونا واپس لوٹ جا یا پھر پولیس سے ویڈیو کال پر بات کرلے‘‘۔یوم جمہوریہ میں26جنوری تک انٹرنٹ سروسیس بند تھی ‘ سعدیہ نے بتایا کہ اسی وجہہ سے وہ پولیس سے بات نہیں کرسکی۔ اس نے بتایا کہ ’’ جہا ں پر وہ داخلہ لیناچاہتی تھی اس کالج کے پرنسپل سے رابطے قائم کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہ نہیں کرسکی۔ لہذا میں نے ٹیکسی لے اورسری نگر چلی گئی۔ اسی راستے میں اونتی پورہ پڑتا ہے جہاں پر پولیس چیک پوائنٹ تھا۔

ان لوگوں( پولیس) نے کار کو روکا اور مجھ سے سوالا ت شروع کردئے‘‘۔سعدیہ نے مزید بتا کہ ’’ جب میں نے چیک پوائنٹ پر کہا کہ میں پونا سے ہوں اور وہی لڑکی سعدیہ جس کے متعلق نیوز پھیلائی جارہی ہے ۔ ان لوگوں نے مجھے میری او رمیرے بیاگس کی تلاشی لی۔ کچھ نہ ملنے کے بعد ‘ وہ لوگ مجھے پولیس اسٹیشن لے گئے۔ ان لوگوں میں نے میرا موبائیل فون دیکھا اور پاسورڈ پوچھا‘ اس کو لاک کھولا اورتفتیش شروع کردی۔

انہیں کچھ نہیں ملا جس کے بعد انہو ں نے مجھے چھوڑ دیا‘‘۔جولائی 2017میں جموں اور کشمیر کے دورے کے متعلق جب سعدیہ سے پوچھا گیاتو اس نے کہاکہ ’’ جو کچھ بھی پچھلے دنوں ہوا ہے وہ ایک میرے ماضی پر مستقبل کااثر ہے۔

لہذا میں اپنے ماضی کو پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں صرف اپنے حال او رمستقبل کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ میں اپنے تعلیم کوجاری رکھناچاہتی ہوں‘‘۔