میلادالنبی ﷺ کا پیام

دُنیا بھر میں آج مسلمان عید ِمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم منارہے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ہندوستان کے چپہ چپہ میں بھی عیدالعیاد عید میلادالنبیؐ بڑے جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔ مساجد کو ،گھروں کو، بازاروں کو بڑے پیمانے پر سجایا جاتا ہے۔ غریبوں کے لئے طعام ِ عام کا انتظام کیا جاتا ہے۔ بیماروں کی عیادت کی جاتی ہے۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کی خوشیاں منانے میں ہم کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ یہ ہم تمام کیلئے عیدالعیاد ہے جو اُس نبی مکرمؐ کی آمد کی خوشی ہے جن کی آمد نے ساری دنیا میں ایک ’’صالح اِنقلاب‘‘ برپا کردیا ۔ ہر برائی کا خاتمہ ہوگیا ، بُت اَوندھے منہ گرنے لگے، ظالم و جابر سرداروں و حکمرانوں کے ہاتھ تھرتھرانے لگے، حق کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں نے باطل کی آگ کو بجھا دیا۔ جھوٹ، فریب، دغا بازی، دھوکہ دہی، امانت میں خیانت کی سَرکوبی ہوئی، جہالت کے تاریک قلعوں میں علم و ہنر کی شمعیں روشن ہوگئیں، بات بات پر لڑنے والے عربوں میں جہالت کا خاتمہ ہوگیا اور آپؐ نے عربوں کی تقدیر ایسی بدل ڈالی کہ ان کی شناخت ایک منفرد قوم کی حیثیت سے ہونے لگی۔ حضور اکرمؐ کی مکی و مدنی زندگی نے نہ صرف عرب بلکہ ساری دنیا کے معاشروں پر اثر ڈالا۔ دین اسلام کی روشنی میں مکہ اور مدینہ کی وادیوں سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل گئی۔

وہ ایسا دور تھا جہاں عورتوں کی کوئی عزت نہیں تھی۔ لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کردیا جاتا، غلاموں پر ظلم کی انتہا کی جاتی تھی ،  لیکن آپؐ کی دنیا میں آمد کے ساتھ ہی تمام برائیوں کا خاتمہ ہوگیا، ہر طرف سچائی اور حق کے ڈنکے بجنے لگے۔ آپؐ نے عورت کو معاشرہ میں ایک باعزت مقام دِلایا، ماں کی شکل میں پیش کرتے ہوئے اس کے قدموں کے نیچے جنت ہونے کا پروانہ سنایا۔ بیٹیوں کے جنت کا باعث بننے کی خوشخبری سنائی، اُمت کو اپنی بیویوں سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی۔ اولاد پر ماں باپ ، والدین پر اولاد کے حقوق سکھائے۔ یتیموں و یسیروں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرمایا۔ آپؐ نے اس گھر کو ’’بہترین گھر‘‘ قرار دیا جہاں یتیموں و یسیروں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا جاتا ہے جبکہ اس گھر کو ’’بدترین گھر‘‘ قرار دیا جہاں یتیموں و یسیروں کو تکلیف دی جاتی ہو، ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ پیارے نبیؐ پر قربان جایئے کہ آپؐ نے پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کی بار بار تاکید فرمائی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا، جس کی ضرر رسانیوں سے اُس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو‘‘۔ہمارے نبی ؐ نے پڑوسیوں کا خاص خیال رکھنے بالخصوص غریب پڑوسیوں کی ہر لحاظ سے مدد کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپؐ نے اخلاق پر بہت زیادہ زور دیا ہے۔ حضور اکرمؐ کا ارشاد مبارک ہے: ’’تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے اخلاق بہتر ہو‘‘۔ آپؐ نے والدین کی فرماں برداری کا حکم بھی دیا ہے۔

ماں باپ کو محبت کی نظر سے دیکھنے والوں کو حج مبرور یعنی حج مقبول کے ثواب کی خوشخبری سنائی ہے۔ آپس میں اتحاد و اتفاق کا درس دیا۔ تعلیم کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا: ’’اگر تمہیں حصول علم کیلئے چین بھی جانا پڑے تو جاؤ‘‘، حقوق العباد اور خدمت ِ خلق کا خیال رکھنے کی بھی ہدایت دی ہے۔ باطنی ، جسمانی پاکیزدگی کے ساتھ ساتھ ماحول کو پاکیزہ رکھنے کا درس دیا ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن حکیم اور سنت رسولؐ پر سختی سے کاربند رہنے کا حکم دیا ہے لیکن افسوس صد افسوس کے آج ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں ، پڑوسیوں کے حقوق کا تحفظ تو دُور ہم یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہمارا غریب پڑوسی بھوکا ہے، شکم سیر ہوکر کھا رہے ہیں۔ حقوق العباد اور خدمت خلق کو تو ہم نے فراموش ہی کردیا ہے۔ ہماری اخلاقی پستی کا حال یہ ہے کہ غیرمسلم ہم سے نفرت کرنے لگے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم کثیر تعداد میں ہونے کے باوجود مغلوب ہورہے ہیں۔ غیروں کی اِجارہ داری قبول کرتے ہوئے اُن کے اشاروں پر کام کررہے ہیں۔ حرام اور حلال میں فرق کی صلاحیتوں سے ہم محروم ہوچکے ہیں۔ ظالموں کے خلاف آواز اٹھانے اور ان کی سَرکوبی کرنے کی اب ہم میں ہمت نہیں رہی۔ دنیا ہمیں ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے رہی ہے، اپنے ہی تراشیدہ دہشت گردی کے بتوں کو ہم سے منسوب کیا جارہا ہے۔ دنیا کو عید ِ میلادالنبیﷺ کے موقع پر ہمیں یہ بتانا ہوگا کہ ہم اُن ’’نبی رحمت‘‘ کے اُمتی ہیں جنہوں نے چرند پرند، شجر ہجر سب پر رحم کیا اور رحم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ہم اُسی نبی آخرالزماں کے اُمتی ہیں جنہوں نے دُشمنوں کے ظلم و جبر کے جواب میں دُعائیں دیں، ہم اُس نبیؐ کے اُمتی ہیں جنہوں نے دُنیا کو امن و امان اور انسانوں سے محبت کا درس دیا ہے۔ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ایک بہترین موقع ہے کہ خود کو دین اسلام میں پوری طرح داخل کرلیں، قرآن اور سنت ِرسولؐ کو مضبوطی سے  تھام لیں، اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہماری کامیابی ہے، ورنہ ہم ذلت و رسوائی کے مستحق ہوں گے۔ آج ہمیں دنیا والوں کی نہیں بلکہ اپنے ربِ ذوالجلال اور اس کے نبی آخرالزماں احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا چاہئے یہی ہماری ’’حقیقی کامیابی‘‘ ہے۔