میرعثمان علی خان ۔ ہندوستان کی امر ترین شخصیت آج بھی ہندوستان کے اہم دستاویزات میں موجود 

حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان صدیقی یا پھر آصف جاہ ہشتم نے سلطنت آصفیہ پر 1911اور1948کے درمیان میں حکمرانی کی‘ اس کے بعد ریاست حیدرآبادکو بھی انڈین یونین میں شامل کرلیاگیا۔ فبروری 1937کی ٹائمز میگزین کے کور پیچ پرآصف جاہ صابع کی تصوئیرشائع ہوئی تھی جس پر لکھا تھا کہ دنیا کا امرترین شخص ۔

ایک اندازے کے مطابق 1940کی اوائل میں ان کی آمدنی دو بلین امریکی ڈالر تھی( آج کہ دور کی34.9بلین امریکی ڈالر) اور اس وقت کی امریکی معیشت کا دوفیصد تھا۔فلمی ستاروں او رمشہور شخصیتوں کی آمدنی کا تذکرہ کرنے والی ویب سائیڈنے ہمیشہ کے وقت کے لئے انہیں دنیا کے امیر ترین شخصیتوں میں شامل کیاہے۔

میر عثمان علی خان نے کے پاس موجود سونے کی قیمت 100ملین ڈالر تھی اور چارسوملین ڈالر کی قیمتی جواہرات تھے جس میں یعقوت ہیرا بھی شامل تھا جو آج کی تاریخ میں 95ملین ڈالر قیمت کا ہے۔

آصف جابع سابع اس کو پیپر ویٹ کی طرح استعمال کیاکرتے تھے۔ جانکاری کے مطابق ان کے پاس پچاس کے قریب رولس رائیس گاڑیاں تھیں‘‘۔ عثمان علی خان 6اپریل کو 1886میں پیدا ہوئی اور آخر ی نظام بنے۔ بعدازاں انہیں جنوری1950میں حیدرآباد کا راج مکھ بنایاگیا‘وہ چھ سال تک راج پرمکھ رہے بعد ازاں لسانی بنیاد پر تین حصوں میں ریاست حیدرآباد کی تقسیم عمل میں لائی گئی کچھ حصہ آندھرا پردیش بنا( موجود ہ ریاست تلنگانہ) کچھ حصہ کرناٹک اور باقی مہارشٹرا میں ضم کردیاگیا۔

شہر حیدرآباد کی زیادہ تر مشہور عمارتیں جیسے عثمانیہ جنرل اسپتال‘ حیدرآباد ہائی کورٹ‘ آصفیہ لائبریری جو اب اسٹیٹ لائبریری کے نام سے مشہور ہے‘اسمبلی ہال‘ جوبلی ہال‘ اسٹیٹ میوزیم‘ نظامیہ ابزرویٹری اور بہت ساری عمارتیں اپنے دور میں انہوں نے تعمیرکروائی۔

انہوں نے عثمانیہ یونیورسٹی قائم کرتے ہوئے تعلیمی میدان میں بڑا تعاون کیا اور جامعہ نظامیہ‘ درالعلوم دیوبند‘ بنارس ہندو یونیورسٹی‘ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو امداد فراہم کی۔انہوں نے 1941بینک بھی قائم کیا’’ حیدرآباد اسٹیٹ بینک‘‘ ( جو اب اسٹیٹ بینک آف حیدرآباد) کے نام سے مشہور ہے۔

ساوتھ ایشیاء کے دولت مند لوگوں میں آج بھی عثمان علی خان کا نام شامل ہے جبکہ وہ 1967میں اس دنیا فانی سے کوچ کرگئے۔

تاہم ان کی دولت ایک بلین امریکی ڈالر تک گھٹ گئی کیوں کہ 97فیصد دولت جس میں ان کے خاندان کی جویلری بھی شامل ہے پر نوتشکیل شدہ حکومت ہند نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ آج بپی حکومت ہند کی جانب سے ان کے جواہرات نمائش کے لئے رکھے جاتے ہیں۔