مہنگائی کا طوفان

نریندر مودی حکومت میں اچھے دن کا خواب دیکھنے والوں کے لئے دال روٹی کے بھی لالے پڑرہے ہیں۔ ویجٹیرین اور نان ویجٹیرین کے خانوں میں معاشرہ کو منقسم کرنے والی طاقتوں نے ایک طرف گوشت کھانے کی سزا کا انتخاب کرلیا ہے تو دال سبزی کے ذریعہ اپنا پیٹ بھرنے والوں کی جیب کاٹ لینے کا بندوبست کرتے ہوئے دالوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا گیا۔ ہندوستان میں دالوں پر بھی اب منافع خوروں، ذخیرہ اندوزوں، کالا بازاریوں کا راج ہوگیا ہے تو غریب آدمی دال سے بننے والی کھانے کی چیزیں بھی حاصل کرنے سے قاصر ہورہا ہے۔ غریبوں کو خود بخود اس حکمرانی سے توبہ کرنے کے لئے مجبور کردیا جارہا ہے تو امیروں کو عام سہولتیں دے کر معاشرہ کو غیر متوازن بنایا جارہا ہے۔ پیاز کی قیمت میں اضافہ کے بعد آلو، ٹماٹر اور دیگر ترکاریوں کو مہنگا کرتے ہوئے اب دالوں کو غریبوں کے دسترس سے دور کردیا جارہا ہے۔ ہندوستانی عوام جو پہلے ہی سے مہنگائی جس ہوش ربا صورتحال کا سامنا کررہے تھے اب دالوں کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ سے پریشان ہیں۔ مہنگائی کے معاملہ میں ایک عنصر لوگوں کی قوت خرید بھی ہے۔

اس کے باوجود کئی اشیاء کے نرخ اگر زیادہ قوت خرید کی حامل ہوں تو یہ امر افسوسناک بھی ہے اور توجہ طلب بھی ہے۔ زندہ رہنے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء خاص کر دالوں اور سبزیوں کا استعمال ناگزیر ہے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ضروری اشیاء کے نرخوں میں اندھا دھند اضافہ ہوا ہے۔ آخر نریندر مودی حکومت عوام پر مہنگائی کے تازیانے برسانے کا سلسلہ کب ختم کرے گی؟ حکومت نے ضروری اشیاء کی قیمتوں کا موازنہ زیادہ آمدنی اور سماجی تحفظ فراہم کرنے والے معاشروں سے کرنا درست نہیں ہے مگر بعض صورتوں میں حکومت ضروری اشیاء پر بھی ذخیرہ اندوزی کے قبضہ کو نظرانداز کرتی ہے تو دالوں کی قیمتوں میں اضافہ کی طرح دیگر اشیاء کو بھی مہنگا کردیا جاتا ہے۔ دالوں کی قیمتوں میں اب ریٹیل مارکٹ 210 روپئے فی کیلو اضافہ ہوا ہے۔ تو صارفین کو خصوص کر غریبوں کو دال کا متبادل تلاش کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑرہا ہے۔ گزشتہ 12 ماہ میں تور کی دال کی قیمت تقریباً دوگنی ہوگئی ہے۔ عوام پہلے ہی سے افراط زر میں اضافہ سے پریشان ہیں۔ مارکٹ کے رجحان کو دیکھتے ہوئے بیوپاریوں نے قیاس آرائیوں سے کام لینا شروع کیا ہے کہ دالوں کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ایک متوسط خاندان کے باورچی خانہ کا ماہانہ خرچ جو تقریباً 7000 روپئے تھا اب یہ 10 ہزار روپئے ہوگیا ہے۔ جو خانہ دار خاتون اپنے پانچ ارکان کے خاندان کے لئے ماہانہ خرچ کا پلان تیار کرتی ہے اس کے لئے اب گھر کے اخراجات برداشت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ دالوں کو ہندوستانی عوام کی اہم خوراک مانا جاتا ہے

اس لئے حکومت میں موجود لوگوں نے دالوں کے ذریعہ اپنا منافع بڑھا لینے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر ہندوستان کے غریب عوام پر ظلم ہے۔ تور، مسور دال، مونگ اور اُرد دال مارکٹ میں 100 روپئے کیلو گرام فروخت ہوتی تھی۔ اچانک اس میں 15 دن کے اندر 40 تا 70 روپئے کا اضافہ کردیا گیا۔ بعض مقامات پر دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ مرکزی حکومت نے بظاہر دالوں کی قیمتوں میں اضافہ کا نوٹ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پانچ ریاستوں میں دھاوے کرتے ہوئے 5800 ٹن دالیں ضبط کرنے کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ مرکزی کابینہ کے سکریٹری نے دالوں کی قیمتوں میں اضافہ ، ان کی پیداوار، حصول اور دستیابی کا جائزہ لیا ہے۔ اصل مسئلہ ذخیرہ اندوزی کا ہے۔ اگر ضروری اشیاء پر خاص منافع خوروں کا کنٹرول ہوجائے تو پھر اس خرابی کے لئے حکومت اور اس کا نظم و نسق ذمہ دار ہوتا ہے۔ آنے والے دنوں میں خریف کی فصل جب مارکٹ میں پہونچے گی تو قیمتوں میں کمی کی توقع کی جارہی ہے۔ لیکن کسانوں کے ہاتھوں سے نکل کر بیوپاریوں تک پہونچنے والی زرعی اشیاء پر قیمتوں کا تعین کرنے والے ٹولے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو حکومت، نظم و نسق، سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جو حکومت عوام کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دینے کا منصوبہ رکھتی ہے وہ مہنگائی پر قابو پانے کو اپنی ذمہ داری نہ سمجھے تو عوامی مسائل جوں کا توں رہتے ہیں۔ مودی حکومت کی کارکردگی سے ظاہر ہورہا ہے کہ اس نے سیاست اور معیشت کو ملاکر غریب عوام کی جیب ہلکی کرنے کی پالیسی پر کاربند رہنے کا خفیہ منصوبہ بنایا ہے۔ اس لئے جو عوام اچھے دن آنے کے لئے خواب میں ووٹ دیئے تھے انھیں قیمتوں میں اضافہ کے بحرانوں میں جکڑا گیا ہے تاکہ انتخابی نعروں کو یاد کرکے حکومت کی ناکامیوں کا ماتم کرنے کے بجائے اپنی غریبی اور قوت خرید سے محرومی کا غم کرتے رہیں۔