مکہ مکرمہ دستاویز

غرق ہوجائیں گے فتنوں کے سبھی دشت و جیل
میں جو اٹھوں گا کسی روز سمندر بن کر
مکہ مکرمہ دستاویز
مکہ مکرمہ میں عرب ممالک کا اجلاس ایک ایسے وقت منعقد ہوا جب ایران، عراق اور دیگر ممالک میں پائی جانے والی صورتحال کو لیکر بعض گوشوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ عالم اسلام کے کئی ممالک اس وقت مغربی زیادتیوں کا شکار ہیں۔ خطہ عرب میں حملوں میں بھی اضافہ ہونا افسوس کی بات ہے۔ رابطہ عالمی اسلامی نے مکہ مکرمہ میں اپنے اختتامی اجلاس کے موقع پر دستاویز جاری کی۔ اجلاس کا اہم موضوع مسلمانوں کے مختلف طبقات کے درمیان پرامن بقائے باہم تھا۔ آج ساری دنیا میں مقیم مسلمانوں کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ مسلمانوں میں ہی سب سے پہلے رواداری اور امن بقائے باہم کے فروغ کی جانب توجہ کرنے کی کوشش ایک مستحسن اقدام ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے تمام مسلم ملکوں میں باہمی رابطہ کاری اور بھائی چارہ کو فروغ دینے پر توجہ دی ہے۔ تنظیم کی دستاویز اسلامی میں 7 صفحات پر مشتمل متن کا اہم موضوع رواداری اور مساوات کو فروغ دینا ہی ہے۔ مسلمانوں کے اندر نفاق اور منافرت پھیلانے والے ایسے مبلغین تیزی سے پیدا ہوتے جارہے ہیں جو اسلام کی بنیادوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ تنظیم اسلامی تعاون نے ایسے منافرت پھیلانے والے ٹولوں کی حوصلہ شکنی کیلئے رہنمایانہ ہدایات دی ہیں۔ کسی بھی فرقہ کے پیروکاروں کو کمتر خیال کرنا بھی غلط ہے۔ ایسے عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہئے۔ اسلامی تعاون تنظیم کی یہ دستاویز اسلام کے مقدس شہر مکہ مکرمہ سے جاری کرنے کی خصوصیت یہ ہیکہ دنیا بھر میں مقیم تقریباً ایک ارب 60 کروڑ مسلمانوں کو یکجا کیا جاسکے اور ان کو ذہنی ہم آہنگ کیا جاسکے۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کو مختلف خانوں میں بانٹا جارہا ہے۔ ایک کلمہ گو مسلمان مسلکی اور فرقہ کی بنیاد پر باہم متصادم ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے تعلق سے غیرمسلم افراد میں جسطرح کی غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں اس سے بھی مسلمانوں کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ اسلام فوبیا نے اچھے اور برے نتائج پیدا کردیئے ہیں۔ اچھے نتائج یہ نکل رہے ہیں کہ اسلام فوبیا سے متاثر لوگ اسلام کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرکے داخل اسلام ہورہے ہیں اور جو لوگ سطحی طور پر نفرت اور اسلام فوبیا کا شکار ہیں مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ان تمام امور پر توجہ دینے کیلئے مکہ مکرمہ اور دستاویز وقت کی اہم ضرورت کی تکمیل میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ مکہ مکرمہ اسلام کا مقدس مقام ہے۔ یہاں کی سرگرمیوں کو تقدس بھی حاصل ہوتا ہے۔ ایران کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے درمیان 3 تاریخی چوٹی کانفرنس ہوئی ہیں۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز عالم عرب کے ساتھ ساتھ عالم اسلام میں پرامن بقائے باہم کو یقینی بنانے کی غرض سے ہی خلیجی تعاون کونسل اور عرب ممالک کے لیگ قائدین کو مدعو کیا جس میں حالیہ حملوں اور اس کے سنگین عواقب و نتائج پر گہرائی سے غور کیا گیا ہے۔ عالم عرب اور عالم اسلام کو درپیش مشترکہ چیلنجس سے نمٹنا ضروری ہے۔ مملکت سعودی عرب کے قائدانہ کردار اور اس کے اہم رول کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے۔ دنیا کے بیشتر ماہرین نے بھی سعودی عرب کے رول کی تعریف کی ہے کیونکہ عرب اور اسلامی دنیا کی صفوں کو متحد کرنے اور عرب اسلامی دنیا کو درپیش چیلنجس سے نمٹنے کیلئے سعودی عرب کی مسلسل مساعی قابل قدر ہے۔ خلیج، عرب اور اسلامی ممالک کی سطح کی یہ کانفرنس اور سربراہوں کا اجلاس اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو یہ خوش آئند تبدیلی ہوگی۔ اسلامی یکجہتی مقصد کے حصول کیلئے جاری ان کوششوں کو کامیاب بنانے کیلئے ہر ایک مسلم ملک کو تعاون کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مکہ مکرمہ جیسی مقدس سرزمین پر اس سربراہی اجلاس کا انعقاد اپنے عزائم اور منصوبوں کے مطابق آگے بھی کام کرتے ہوئے کامیاب ہوتا ہے تو یہ عالم عرب اور عالم اسلامی کیلئے قابل فخر بات ہوگی۔ اس طرح کے اجلاس اہمیت کے حال ہوتے ہیں اور انہیں اہم ترین سمجھ کر اس کے مقاصد کو بروئے کار لانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جانی چاہئے۔
نئی وزیرفینانس نرملا سیتارامن اور معاشی مسائل
نریندر مودی حکومت کی دوسری میعاد میں ملک کی اقتصادی صورتحال کی ذمہ داری ایک خاتون سنبھال رہی ہیں۔ معاشی ترقی کے مقررہ اہداف حاصل کرنے کیلئے نئی وزیرفینانس نرملا سیتارامن کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانی ہیں۔ ان کی معاشی ٹیم کس طرح بجٹ اور مصارف کے درمیان توازن برقرار رکھ سکے گی یہ آئندہ اس ٹیم کی کارکردگی سے دیکھا جائے گا۔ معاشی مشکلات میں اضافہ کو روکنا سب سے بڑی بات ہوگی۔ سابق وزیرفینانس ارون جیٹلی نے عوام کو راحت پہنچانے والے اقدامات کا وعدہ کیا تھا مگر اس سے کتنے لوگ مستفید ہوئے یہ ڈیٹا سامنے نہیں آیا۔ ملک کے مشکل معاشی حالت کا سب سے زیادہ تر غریب عوام پر اثر پڑتا ہے اور اب مودی حکومت کا دوسرا دور عوام کو ان کی مشکلات سے چھٹکارا دلانے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں یہ نئی وزیرفینانس نرملاسیتارامن ہی اپنی کارکردگی کے ذریعہ دکھائیں گی۔ عوام کو معاشی صورتحال کی فکر دکھائی نہیں دیتی۔ اس لئے مودی کی ٹیم کو دوبارہ لایا گیا ہے۔ اب عوام ہی اس ٹیم کی پالیسیوں کے نفع و نقصان کی ذمہ دار ہوں گے۔ انہیں مہنگائی کے گرداب سے نکالنے کیلئے نرملا سیتارامن کی پالیسیاں ہی کارگر ہوں گی۔ ہندوستانی معیشت کو اس وقت ہمہ رخی رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ ایسے میں وزیرفینانس کی حیثیت سے وہ کس طرح کا نسخہ تیار کریں گی یہ قابل توجہ بات ہوگی۔ انہیں وزیراعظم مودی کی وکالت شدہ پالیسیوں اور غریبوں، پچھڑے طبقات کی مدد کرنے کی اسکیمات کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔ بہرحال وزیرفینانس کیلئے نرملا سیتارامن کا انتخاب ملک کی معیشت کیلئے امید کی کرن سمجھا جارہا ہے تو انہیں مہنگائی پر قابو پاتے ہوئے صارفین کی طلب اور سرمایہ کاری کی رفتار کا جائزہ لیتے ہوئے معاشی پیداوار کو تیز کرنے پر توجہ دینی ہوگی۔